آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک گھر میں ایک یا دو فن کار یا ہنرمند پیدا ہوتے ہیں…… یا یہ دیکھا ہوگا کہ ایک فن کار کو اللہ تعالا نے دو طرح کے فنوں کی صلاحیتوں سے نوازا ہوگا، لیکن یہ کبھی نہیں سنا ہوگا کہ ایک ہی گھر میں مصور، شاعر، گلوکار، مجسمہ ساز، رباب اور طبلہ کے ماہر پائے جاتے ہیں۔
یہ اعزازضلع ملاکنڈ کو حاصل ہے، جہاں گاؤں ہریانکوٹ کے ایک گھر میں مذکورہ بالا تمام فن کار موجود ہیں۔ باپ دوست محمد طالب جان شاعر ہے اور وہ بھی صرف ردیف و قافیے اور گل و بلبل کا شاعر نہیں…… بلکہ اس کی شاعری میں اپنے وطن کے حقیقی مسایل کا ادراک اور وطن کی خوب صورتی اور رنگینیوں کا بیان موجود ہے۔ بیٹا گلزار خان ہریانکوٹ گلوکار ہے اور اللہ نے اسے سوز سے بھرپور ایسی آواز دی ہے کہ سننے والے پر سحر طاری ہو جاتی ہے۔ وہ کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر ہے۔ گا نے کی دھنیں وہ موبائل میں پیانو کی اپلی کیشن سے ترتیب دیتا ہے۔ وہ گانے کے لئے سامانِ موسیقی کا استعمال نہیں کرتا۔ اتفاقاً یا ارادتاً گلزار خان اور پشتو کے مایہ ناز گلوکار سردار علی ٹکر کی آواز میں رتی برابر فرق نہیں۔
اس طرح ایک فرزند کامران ملاکنڈ ہے جو کمال کا مجسمہ ساز ہے۔ وہ عام مٹی سے مجسمے بناتا ہے۔ اس کے تخلیقی کام نے لوگوں کو اس وقت متوجہ کیا جب اس نے عام مٹی میں کچھ چیزیں ملا کر دنیا کے تمام رہنماؤں اور خاص کر پشتون اتلان (ہیروز) کے مجسمے بنائے۔ کامران اپنے حجرے میں موسیقی کے پروگرام میں رباب بھی پرفارم کرتا ہے۔
تیسرے بیٹے کا نام ماجد خان ہے اور وہ بھی وِژول آرٹس کا ماہر ہے۔ اس طرح سب سے چھوٹا بیٹا مشال خان ہے۔ وہ بغیر استاد کے طبلہ اور رباب بہت خوب صورتی سے پرفارم کرتا ہے۔ باپ بیٹے اپنے حجرے میں موسیقی کی محفل سجا کر اپنے لبرل، ترقی پسند اور قوم پرست سوچ کا عملی اظہار کرتے ہیں۔
اس گھر کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ وہاں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کی مکمل آزادی ہے اوراس سلسلے میں ان کی ہر قسم کی امداد اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
اس گھرانے کی ایک بیٹی الماس خانم ہے، جس کو اللہ تعالا نے ایسی منفرد صلاحیتوں سے نوازا ہے جس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔
الماس خانم ضلع ملاکنڈ کے ایک دیہاتی گاؤں ہریان کوٹ کے پہاڑ کے دامن میں رہتی ہے۔ وہ عجیب طرح کی مصورہ ہے۔ وہ لوگوں کی تصاویر بنانے میں پنسل، کاغذ، پن اور رنگوں کا استعال کرنے کی بجائے سوئی، دھاگے اور کپڑے کا استعمال کرتی ہے۔ چوں کہ سوئی اور دھاگے کا استعمال بالعموم خواتین اور بالخصوص دیہاتی خواتین زیادہ کرتی ہیں، اس لیے وہ اپنے اس جداگانہ تخلیقی کام کو صرف فروغ ہی نہیں دے رہی بلکہ ان لڑکیوں کی جن میں تخلیقی صلاحیتیں ہوتی ہیں، اُن کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔ جو چیزیں وہ اپنے فن کے لیے استعمال کرتی ہے، وہ بہت سستی ہیں اور ہر لڑکی ان چیزوں کو کم پیسوں سے خرید کر اپنے فن کو آگے لے جاسکتی ہے۔ الماس خانم نے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہمارے پختوں اور زرعی معاشرے کی روایتی چیزوں مثلاً غلبیل، چھج اور گھر میں موجود فاضل کپڑوں کا استعمال کیا ہے اور اِس طرح اُس نے مصوری کے فن کو دیہی معاشرے سے جوڑ کر ہماری سماجی روایتی چیزوں کو زندہ رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
اس نے دنیا کے بڑے سیاسی رہنماؤں مثلاً باچا خان، بے نظیر بھٹو، نیلسن منڈیلا، عبدالستار ایدھی، عبدالولی خان، ڈاکٹر نجیب اور اشرف غنی کی تصاویربنا کر خواتین کو یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ سیاست صرف مَردوں کا کام نہیں، خواتین کو بھی اس میں حصہ لینا چاہیے۔ الماس خانم نہ صرف ایک آرٹسٹ ہے بلکہ ایک مثبت قوم پرست سوچ کی مالک بھی ہے اور اپنے پختونخوا اور پشتون قوم کے موجودہ حالات کا پورا سیاسی و سماجی شعور رکھتی ہے۔ پشتون اتلان مثلاً پیر روخان، شیرشاہ سوری، احمد شاہ ابدالی اور ملالہ یوسف زئی وغیرہ کی تصاویر بنانا اس کی قوم پرست سوچ کا پکا ثبوت ہے۔ وہ اپنی ان تصاویر کے ذریعے پشتونوں میں ان زعما کے افکار کو زندہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ المختصر، اس کا فن کثیرالجہتی ہے اور اس کے ذریعے وہ لوگوں کو اور خاص کر پشتونوں کو مختلف مثبت پیغامات دیتی ہے۔
"Bellwether international London” مذہبی آزادی کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی تنظیم ہے۔ 2019ء میں ریچل مائنر (Rachel Minor) نے اس تنظیم کی ضرورت اس وقت محسوس کی جب وہ عراق میں یزیدیز کے لیے کام کررہی تھی۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ مذہبی آزادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتی ہے اور دنیا میں ہر انسان کو اپنے مذہبی عقاید اور رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔
یہ تنظیم ہر سال آرٹسٹوں کے درمیان مختلف آرٹس کے مقابلوں کا اہتمام کرتی ہے اور ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ فن کاروں کے شاہ کار اس تنظیم کے اغراض و مقاصد کی ترجمانی کریں اور اس سوچ اور فکر کو لوگوں میں اُجاگر کرنے میں کردار ادا کریں، تاکہ مذہب کے نام پر قتل وغارت کا خاتمہ ہو اور تمام انسان دنیا میں امن اور سکون سے زندگی گزار سکیں۔
اس سال "Bellwether International” نے مصوروں کے درمیان مقابلے کا بندوبست کیا تھا۔ اس مقابلہ کے لیے دو کیٹیگریز کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ایک مذہبی اور عقیدہ کی آزادی اور دوسری یزیدی کیٹیگری۔ یزیدی کیٹیگری میں پہلا انعام میا سیڈلر نے جب کہ مذہبی آزادی میں الماس خانم کے شاہکار نے پہلا انعام جیتا ہے۔
ایک لڑکی اوراپنے پشتون قوم پرست سوچ کی اسیر ہونے کے ناتے الماس خانم نے مذہبی اور ثقافتی آزادی کا پیغام ایک پشتون لڑکی کی خوب صورت تصویر کے ذریعے دیا ہے۔ تصویرنے اپنی دل کشی اورپشتون ثقافت کا آئینہ دار ہوتے ہوئے دنیا کی تمام قوموں کو بالعموم اور پختون قوم کو بالخصوص متوجہ کیا ہے۔
اس تصویر میں ایک پشتون لڑکی اپنے خوب صورت روایتی لباس میں ملبوس سر پر مٹکا رکھتی ہوئی بانسری کے ذریعے امن اورخوشحالی کا پیغام دے رہی ہے۔ تصویر کے ایک طرف تمام مذاہب کے نشانات بنا کر ان کے ذریعے مذہبی رواداری، آزادی اور برداشت کا پیغام اُجاگر کیا گیا ہے جب کہ دوسری جانب لڑکی کی گود میں آئینہ اور رجڑومہ نظر آ رہا ہے (رجڑومہ کپڑے سے بنی ہوئی چھوٹی سی تیلی ہوتی ہے جس میں سرمہ اور سلائی رکھی جاتی ہے)جس کے ذریعے لوگوں کو اپنے مذہبی اور ثقافتی روایات کے اندر رہتے ہوئے خواتین کو حسن و آرایش کرنے کی آزادی دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ تصویر کے لیے رنگوں کا انتخاب لوگوں کے جمالیاتی ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے اور جو بھی اس تصویر کو دیکھتا ہے، اُسے بار بار یہ تصویر دیکھنے کو دل چاہتا ہے۔
"Bellwether International” کے تحت انعامات دینے کی تقریب برطانیہ کے دارالعوام کے ڈائیننگ روم میں منعقد کی گئی جس میں اس تنظیم کے ریچل مائنر کے علاوہ ارکانِ پارلیمنٹ، ذرایع ابلاغ کے ماہرین، سماجی کارکن، مذہبی سکالرز، سفارت کار، اداکار، ملالہ یوسف زئی کے والدین ضیاء الدین یوسف زئی اور تور پیکئ یوسف زئی نے شرکت کی۔ چوں کہ ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے الماس خانم برطانیہ نہ آسکی تھی، اس لیے ملالہ کی ماں تور پیکئی نے اس کا انعام وصول کیا۔
الماس خانم نے اپنے ویڈیو لنک کے ذریعے اس پُروقار تقریب سے خطاب کیا۔ اس کو اپنا پیغام پشتو میں جاری رکھنا چاہیے ،تھا لیکن بعد ازاں انگریزی بولنے کی وجہ سے وہ اپنا مافی الضمیر صحیح طریقے سے بیان نہ کرسکی۔ اس کا شاہ کار شان دار اور دل کش تھا، لیکن اپنے شاہ کار کے اصل پیغام (مذہبی آزادی) پر بات کرنے سے یا تو اس نے ارادتاً گریز کیا یا وہ یہ سمجھ نہ سکی کہ اس کی تصویر نے مذہبی آزادی کی کیٹیگری میں اوّل پوزیشن حاصل کی ہے اور اس کو اپنے شاہ کار کو اس ایشو سے لنک کرکے دنیا کو پیغام دینا ہے۔ اُس نے اپنے فن اور کام کے کردار پر فوکس نہیں کیا اور غیر متعلقہ باتوں پر توجہ دی۔ حالاں کہ اس نے انعام جیتنے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر اپنی تصویر کے اندر چھپی ہوئی مذہبی آزادی اور امن کے پیغام کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا تھا، لیکن اس اہم جگہ پر وہ اپنا پیغام موثر طریقے سے اُجاگر نہ کرسکی۔ اور بقولِ رحمت شاہ سائل صاحب:
دَ توری او مڑانی جنگ مو ھیس کلہ بائیللے پہ چا نہ دے
دَ عقل او نصیب جنگ لہ چی راشو وار خطا شو
یعنی ’’پشتون بہادری اور تلوار کی جنگ کسی سے نہیں ہارے، لیکن جب عقل اور نصیب کی بات آتی ہے، تو اس میں پختون ما ر کھاتے ہیں۔‘‘
الماس خانم نے اپنی تقریر کا آغاز پشتو میں کیا لیکن بعد میں انگریزی میں جاری رکھا۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ ہر وہ پختون رہنما، سماجی کارکن اور تخلیق کار جس کو بین الاقوامی فورم پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے، اس کو اپنی مادری زبان میں بات کرنی چاہیے۔ مغرب کے لوگ خاص کر برطانیہ کی حکومت اس کام کو پسند کرتی ہے اور اس پر بیلن پاونڈز خرچ کرتی ہے۔ شہید ڈاکٹر نجیب اللہ نے اقوامِ متحدہ میں پشتو میں تقریر کی تھی اور اس کے ترجمہ کے لیے فوری ترجمان کا انتظام کیا گیا تھا۔
الماس خانم ملاکنڈ کا افتخار ہے جو اپنی خداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر کم عمری ہی میں ایک دیہات کے پہاڑوں سے نکل کر برطانیہ کے دارالعوام تک پہنچ گئی ہے۔ وہ اس وقت کالج کی طالبہ ہے۔ اس کو اپنے فن کے ذریعے بڑے بڑے معرکے سر کرنے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اپنے فن کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ دنیا میں نا انصافی، ظلم، استحصال، مذہب کے نام پر قتل و غارت اور عورتوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف فعال کردار ادا کرے گی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔