عام طور پر ’’زخّار‘‘ (عربی، اسمِ صفت) کا اِملا ’’ذخّار‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’فرہنگِ عامرہ‘‘، ’’نور اللغات‘‘، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’حسن اللغات (جامع)‘‘، ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘، ’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘ اور ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’زخّار‘‘ ہے جب کہ اس کے معنی ’’بہت بھرا ہوا پانی سے‘‘، ’’فارسی میں بہت شور کرنے والا‘‘، ’’موجیں مارتا ہوا‘‘، ’’لہریں لیتا ہوا‘‘، ’’سمندر، دریا وغیرہ کے لیے مستعمل ہے۔
صاحبِ نور نے باقاعدہ طور پر ان الفاظ میں صراحت فرمائی ہے: ’’اِس کا اِملا زخّار صحیح ہے۔ عربی میں زخر۔‘‘
رشید حسن خان بھی اپنی کتاب ’’اُردو کیسے لکھیں؟‘‘ کے صفحہ نمبر 116 پر ’’زخّار‘‘ کو صحیح اِملا مانتے ہیں۔ نیز رقم کرتے ہیں: ’’جیسے: بحرِ زخّار۔‘‘
نسیم امروہوی کی ایک طویل نظم ’’تمام خلق کا خدمت گزار ہے پانی‘‘ کا یہ بند گویا ’’زخّار‘‘ پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے کہ
بیان آب کا ابلا جو قلزم زخار
برس پڑا ہے تخیل کا ابر دریا بار
زمین شعر کا یوں دھوگیا ہے گرد و غبار
ورق ورق میں ہے طوبی کی پتیوں کا نکھار
جو اس بہانے سے کوثر کی راہ کھل جائے
یقین ہے مری فرد حساب دھل جائے