ضلع اپر سوات مگر کب اور کیسے؟

حالیہ دنوں میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے سوات میں ایک جلسے کے دوران میں اَپر سوات کو الگ ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ نئے ضلع میں زیادہ تر عالمی سطح پر شہرت یافتہ خوبصورت سیاحتی مقامات جیساکہ سوات کے ماتھے کا جھومر کہلانے والی وادئی کالام، بحرین، مٹلتان، اتروڑ اور گبرال جیسے علاقے بھی شامل ہوں گے۔ قدرتی جھیلوں، آبشاروں، وسیع و عریض قدرتی جنگلات اور برف پوش پہاڑوں سے مالامال ہونے کے باوجود اَپر سوات کے یہ علاقے 1969ء میں ریاست کی حیثیت ختم ہونے اور پاکستان کے ساتھ ادغام کے بعد مکمل طور پرحکومتی بے حسی کا شکار رہے ہیں۔ ان علاقوں میں آج بھی مواصلات، صحت اور تعلیم کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریاستی دور میں والئی سوات میاں گل جہانزیب نے ان دشوار گزار علاقوں کی ترقی کو خصوصی ترجیح دی تھی۔
آج بھی وادئی کالام سے میلوں دور شمالی بالائی علاقوں گبرال اور مہوڈنڈ جھیل تک جو سڑکیں استعمال ہو رہی ہیں، ریاستی دور کی ہیں۔ اسی طرح بحرین، کالام، مٹلتان اور گبرال کی پہاڑیوں پر ریاستی دور کے بنیادی صحت کے مراکز اور سرکاری سکولز بھی ریاستی دور ہی کے ہیں۔ اس کے بعد نئے سرکاری اداروں کی تعمیر تو کجا ریاستی دور کے اداروں کو بحالی رکھنے کے لئے بھی کسی نے کوئی کوشش نہیں کی۔

آج بھی وادئی کالام سے میلوں دور شمالی بالائی علاقوں گبرال اور مہوڈنڈ جھیل تک جو سڑکیں استعمال ہو رہی ہیں، ریاستی دور کی ہیں۔ اسی طرح بحرین، کالام، مٹلتان اور گبرال کی پہاڑیوں پر ریاستی دور کے بنیادی صحت کے مراکز اور سرکاری سکولز بھی ریاستی دور ہی کے ہیں۔

پاکستان کے ساتھ ادغام کے بعد سوات کے ان بالائی علاقوں کی ترقی کا پہیہ جام ہوگیا، جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سر فہرست ان علاقوں کی انفرادی خصوصیت(جو ریاستی دور میں دی گئی تھی) کو برقرار نہ رکھنا ہے۔ریاستی دور میں مہوڈنڈ جھیل سے کنڈل شاہی تک سڑکیں تعمیر کی گئی تھیں جن کے ابھی صرف نشان ہی رہ گئے ہیں۔
ان علاقوں کی پسماندگی کا گہرا اثر سوات کے مرکزی شہر منگورہ پر انتظامی دباؤ کی صورت میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ مینگورہ شہر میں اب پیدل چلنا بھی محال ہوگیا ہے۔ ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے قبل بھی دو بڑے حصوں کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 1991ء میں بونیر نے ضلع کی حیثیت پائی جس کی آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق اٹھارہ لاکھ ستانوے ہزار ہے، اور 1995ء میں ضلع کی حیثیت پانے والے ضلع شانگلہ جس کی آبادی سات لاکھ اٹھاؤن ہزار ہے۔
اب چوں کہ اَپر سوات اور لوئر سوات کی کل آبادی تیئس لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ اور اَپر سوات رقبے کے لحاظ سے چار گنا لوئر سوات سے بڑا ہے بلکہ والئی سوات کی جانب سے ’’سوات کوہستان‘‘ کا نام پانے والے شمالی پہاڑی علاقے جو چھے یونین کونسلوں پر مشتمل ہیں، وہ بھی باقی سوات سے تین گنا بڑا رقبہ رکھتا ہے ۔ اور ان تمام علاقوں کا بوجھ مرکزی شہر منگورہ پر پڑ رہا ہے جو تمام تر ضلعی انتظامی اداروں کا بوجھ اپنے کاندھے پر لئے ہوا ہے۔ دوسری طرف منگورہ شہر کی آبادی میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے ۔
سوات کے ان مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے گذشتہ اے این پی دورِ حکومت سے ایک ایسی حکمت عملی پر غور ہونے لگا، جس کے ذریعے بالائی علاقوں کی پسماندگی کو دور کیا جاسکے اور منگورہ شہر کا بوجھ بھی ہلکا کیا جاسکے۔ موجودہ صوبائی حکومت پاکستان تحریک انصاف نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی اس پر پیپر ورک شروع کیا اور غالباً دو سال قبل صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے اخباری بیان کے ذریعے یہ نوید سنائی کہ اَپر سوات کو ضلع کا درجہ دینے کے لئے اسی فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، مگر شومئی قسمت کے کچھ سیاسی مداخلت کی بنا پر مزید عملی کام سرد خانے کی نذر ہوگیا تھا۔ اب اَپر سوات کے پسماندہ علاقوں کے عوام صوبائی اسمبلی کے ممبران سمیت متحرک ہوگئے اور الگ ضلع کے لئے بھاگ دوڑ شروع کی۔ بلآخر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے اَپر سوات کو الگ ضلع کا درجہ دینے کا باقاعدہ اعلان کیا اور اگلے دورے میں نوٹی فکیشن بھی ساتھ لینے کا وعدہ کیا۔
مگر یہ بحیثیت پاکستانی ہم سب کا خاصا رہا ہے کہ اس طرح کے انتظامی اور قانونی فیصلوں پر دلائل کے بجائے محض مفروضوں کے ذریعے اختلافات کھڑے کردیتے ہیں، جیسا کہ اَپر سوات کے ضلع کا اعلان ہونے کے بعد مینگورہ کی تاجر برادری، شہر میں کام کرنے والی صحافی برادری اور کچھ سیاسی حلقے مفروضوں کی بنا پر اس فیصلے کو رد کرنے لگے ہیں۔
پہلا مفروضہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ بونیر اور شانگلہ نے ضلع بننے کے بیس سال بعد کون سی ترقی کی ہے کہ اب الگ ضلع بننے سے اَپر سوات اور لوئیر سوات انتظامی طور پر پر الگ ہونے سے ترقی کرپائیں گے؟ لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر یہ دو ضلعے الگ ہونے کے بعد خاطر خواہ ترقی نہ کرسکے ہیں، تو الگ نہ ہونے کی صورت میں یہ مزید کتنی پسماندگی سے دوچار ہوتے؟ چلیں، اگراپنے اس سوال کو بھی خود ہی مفروضہ سمجھوں، مگر یہ کیا اس منطق سے بھی روگردانی کریں گے کہ اگر منگورہ شہر کا حلیہ تیئس لاکھ کی آبادی سے جتنا بگڑ گیا ہے، اگر ان دو اضلاع کی کم کم از کم پچیس لاکھ آبادی کا انحصار بھی اس پر ہوتا، تواس کا مزید کیا حشر ہوتا؟
دوسرا مفروضہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس تقسیم سے اَپر اور لوئر سوات کے عوام کے مابین ’’پختون ولی‘‘ اور بھائی چارے میں دراڑ ڈالنے کی سازش ہے۔ توسوال یہ ہے کہ بونیر اور شانگلہ الگ ہونے سے بھائی چارے اور پختون ولی میں کبھی ذرہ برابر فرق آیا ہے؟ پختون ولی اور پختون بھائی چارے کا رشتہ تو اب سیکڑوں میل دور پشاور کے ساتھ بھی ہے اور سرحد پار افغان کے ساتھ بھی لر و بر پختون کی صورت میں جڑا ہوا ہے۔ تو جناب یہ سرحدی تقسیم نہیں بلکہ چند کلومیٹر پر انتظامی تقسیم کس طرح پختونوں کے مابین دوری بڑھانے کی سازش ہوسکتی ہے ؟
اگر اس تمام تر صورتحال کا بغور مشاہدہ کیا جائے، تو یہ مفروضہ نیک شگون ہے، کہ سواتیوں کو اپنے بھائی چارے کے تحفظ کا بروقت ادراک ہے، جو انتظامی تقسیم کے بعد اخوت اور ذہنی ہم آہنگی کو مزید تقویت بخشے گا۔
اس طرح سب سے بڑا فائدہ ان دور افتادہ علاقوں کے لئے ہوگا جن کی رسائی انتظامی دفاتر تک نہ ہونے کے باعث اور حکومتی بے حسی کے باعث پسماندہ ترین رہ گئے ہیں۔ بہ شرط یہ کہ نئے ضلع کا ہیڈ کوارٹر وسطی علاقوں مدین یا باغ ڈھیری میں قائم کیا جائے۔ جہاں تک رسائی شہری علاقوں مٹہ اور خوازہ خیلہ سمیت کالام، مٹلتان، اتروڑ، گبرال اور بحرین کے لئے بھی آسان ہو۔ ان پسماندہ علاقوں کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافہ کیا جائے اور قیمتی جنگلات کے تحفظ کے لئے محکمہ فارسٹ کو مزید مستحکم کیا جائے۔ پانی سے مالامال ان علاقوں میں مزید سستے پن بجلی گھر تعمیر کرکے جنگلات کا تحفظ کیا جائے اور یہاں کی سب سے بڑی انڈسٹری سیاحت کے فروغ پر خصوصی توجہ دی جائے۔ لیکن یہ سب انتخابات کے لئے تشہیری مہم نہیں بلکہ عملی طور پر ہو۔ اس طرح کے اعلانات بار بار سننے کو ملتے ہیں لیکن اخباری تراشوں تک محدود ہوتے ہیں جیسا کہ وزیر خزانہ جناب مظفر سید نے وادئی کالام میں ایک شمولیتی جلسے کے دوران میں ایک عالمی سیاحتی زون ہونے کے ناتے وادی کالام کے لئے خیبر بینک کی منظوری اور کالام پریس کلب کو عالمی سطح کا پریس کلب بنانے کا اعلان کیا اور پھر رات گئی بات گئی کے مصداق کچھ بھی عملی طور پر نہ ہوا۔

ہمارے پسماندہ علاقوں کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافہ کیا جائے اور قیمتی جنگلات کے تحفظ کے لئے محکمہ فارسٹ کو مزید مستحکم کیا جائے۔ پانی سے مالامال ان علاقوں میں مزید سستے پن بجلی گھر تعمیر کرکے جنگلات کا تحفظ کیا جائے اور یہاں کی سب سے بڑی انڈسٹری سیاحت کے فروغ پر خصوصی توجہ دی جائے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد از جلد نئے ضلع کا نوٹیفکیشن جاری کرکے مدین یا باغ ڈھیرئی میں ہیڈکوارٹر کھول دیا جائے اور تمام انتظامی امور کا جلد از جلد آغاز کیا جائے، تاکہ بالائی علاقے مزید مسائل سے محفوظ رہیں اور منگورہ شہر کی حالت بھی بہتر ہوجائے، جہاں سے سالانہ سات سات آٹھ آٹھ لاکھ سیاح گذر کر بالائی سیاحتی مقامات کو جاتے ہیں۔