بھارتی صوبے ہریانہ میں 16 اگست 1968ء کو پیدا ہونے والے 54 سالہ اروند کجریوال پہلے بیوروکریٹ بنے۔ پھر نظام بدلنے کی خواہش میں سیاست میں آگئے۔ انھوں نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ بنائی دہلی سے سیاست شروع کی…… اوربہت تیزی سے آگے بڑھے۔
دسمبر 2013ء میں وزیرِ اعلا بن گئے…… مگر پھر 49 دنوں کے بعد استعفا دے دیا۔ کیوں کہ وہ اسمبلی سے کرپشن کے خلاف بل منظور نہیں کروا سکے تھے۔ انھوں نے اگلا الیکشن لڑا، تو دہلی کے لوگوں نے اکثریت دی۔ وہ وزیرِاعلا منتخب ہوئے۔ پھر انھوں نے وعدوں پر عمل در آمد شروع کیا۔ دِلی میں لوڈ شیڈنگ تھی۔ بجلی مہنگی تھی۔ سرکاری اسکولوں اور ہسپتالوں کی حالت بری تھی۔ سڑکوں کی حالت بھی بہت خراب تھی۔ دِلی میں صرف پچاس فی صد پانی کی سپلائی کے لیے ’’پائپ لائن‘‘ تھی۔
کجریوال نے محنت کی اب دِلی میں لوڈ شیڈنگ نہیں۔ بجلی فری ہے۔ سرکاری اسکولوں میں تعلیم فری ہے۔ دلی کے ہسپتالوں میں علاج مفت ہے۔
کجریوال نے دلی میں محلہ کلینک متعارف کروایا پورے بھارت میں دلی واحد ریاست ہے…… جہاں مالیاتی خسارہ نہیں۔ سات سال میں دلی حکومت کا بجٹ 30 ہزار کروڑ سے بڑھ کر 75 ہزار کروڑ ہوگیا ہے۔ اس دوران میں دلی کے جی ڈی پی میں 150 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
اروندکیجریوال اب تیسری مرتبہ دلی کے وزیرِ اعلا بن چکے ہیں۔ آج دلی کے دو کروڑ شہریوں کوبنیادی سہولیات مفت حاصل ہیں۔ دلی کی سڑکیں شان دار ہیں۔ انھوں نے دلی کی عورتوں کے لیے مفت ٹرانسپورٹ مہیا کر رکھی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کیجریوال جدید ٹیکنالوجی کے قایل ہیں۔ انھوں نے مختلف ایپس بنا رکھی ہیں آپ ہر وقت ایپ کے ذریعے اسکول میں گئے ہوئے بچے کو گھر سے چیک کرسکتے ہیں۔ دلی میں لوگوں کی حفاظت کے لیے اتنے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دیے گئے ہیں کہ دلی، نیو یارک، لندن اورشنگھائی سے اس معاملے میں آگے نکل گیا ہے۔
اروند کیجریوال دلی کے شہریوں کو کرپشن سے بھی بچا رہے ہیں۔ انھوں نے دِلی میں یہ طریقہ شروع کر رکھا ہے کہ دِلی کا کوئی بھی شہری جس نے پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ڈومیسائل یا پھر کوئی لائسنس بنوانا ہو، وہ ایپ یا بذریعہ فون بتائے گا کہ میں فُلاں وقت گھر پر ہوں گا اور مجھے ڈومیسائل یا لائسنس بنوانا ہے۔ شہری نے بتا دیا، اب شہری کا کام ختم اور کجریوال سرکار کا کام شروع۔
دلی کے شہری کے بتائے گئے مقام پر ایک ٹیم آئے گی۔ ان کے پاس فوٹو کاپی مشین بھی ہوگی۔ یہ ٹیم اپنی کارروائی کرکے چلی جائے گی۔ اس کارروائی کے بعد سات دن کے اندر حکومت پابند ہوگی کہ وہ شہری کا ڈومیسائل یا لائسنس اس کے گھر پر مہیا کرے۔ اس طرح شہری کو نہ کہیں جانا پڑا، نہ دفتروں میں دھکے کھانے پڑے اور نہ کسی کو رشوت دینا پڑی۔ اسے جس چیز کی ضرورت تھی، وہ اسے گھر پر مہیا کر دی گئی۔
اس وقت دلی کی اسمبلی میں 62 نشستیں اروندکجریوال کی عام آدمی پارٹی کی ہیں جب کہ مودی کی بی جے پی کے پاس صرف آٹھ نشستیں ہیں۔ دہلی ماڈل دیکھ کر بھارت کی دوسری ریاستوں کے لوگ اپنی اپنی حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ بجلی، اسکول، صحت، ٹرانسپورٹ……؟ جواب آتا ہے کہ کیسے کریں……؟ لوگ جواباً کہتے ہیں جیسے کجریوال نے دلی کے لوگوں کو سب مہیا کیا ہے۔
کجریوال پر بہت دباؤ تھا کہ وہ اپنی پارٹی کو دلی سے باہر نکال کر دوسری ریاستوں میں بھی لائیں۔ کیوں کہ کجریوال کہتا ہے کہ’’مَیں ہر شہری کا وزیرِ اعلا ہوں۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو۔ خواہ وہ کسی بھی ذات کا ہو!‘‘
سیاسی دباو پر کجریوال نے پنجاب میں رسک لیا، پنجاب ہے کیا؟ 1947ء میں تقسیم سے پہلے پانچ دریاوں کی دھرتی پنجاب کے پانچ ڈویژن تھے۔ لاہور، راولپنڈی اور ملتان ہمارے حصے میں آگئے، جب کہ دہلی اور جالندھر بھارت کے حصے میں انھوں نے دہلی کو الگ ریاست بنا یا پنجاب ہی سے نکال کر ہر یانہ کو الگ صوبہ بنایا ہما چل پردیش کو بھی صوبہ بنایا۔ پنجاب کا بہت سا حصہ راجستھان کو دے دیا۔ اب جو باقی بچا، وہی ہندوستان کاپنجاب ہے۔ اسی سال 2022ء میں اروند کجریوال نے اپنی پارٹی کو پنجاب میں الیکشن میں اُتارا، تو اس کی پارٹی نے بڑے بڑے لیڈروں کو ہرا کر 117 میں سے 92 سیٹیں جیت لیں۔ پنجاب کے لوگوں نے بھی دہلی ماڈل کو پسند کیا۔ کانگرس پھربھی 18سیٹیں لے گئی۔ بی جے پی تو صرف ایک دو سیٹوں تک ہی محدود رہی۔ اب جب حلف کی باری آئی، تو پنجاب کے نئے وزیرِ اعلا بھگونت مان نے آزادی کے متوالے بھگت سنگھ کے گاؤں میں حلف لیا۔ ویسے بھگت سنگھ نے کہا تھا کہ’’اگر ہم آزادی کے بعد نظام نہیں بدلیں گے، تو کچھ نہیں ہوگا!‘‘
کجریوال کہتا ہے کہ ہمارے دیس میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں نے انگریزں کا دیا ہوا نظام اپنا رکھا تھا۔ مَیں نے اُسے بدل دیا ہے۔ انھوں نے پنجاب کے ہر گھر کے لیے 300 یونٹ بجلی فری یعنی بلامعاوضہ کررکھی ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
