اورحان پامک کے نوبل خطبے سے ایک چھوٹا سا اقتباس

انتخاب: احمد بلال
یہ اقتباس نوبل انعام یافتہ ادیب اورحان پامک (Orhan Pamuk) کے نوبل خطبے ’’میرے والد کا سوٹ کیس‘‘ سے لیا گیا ہے:
’’لیکن میری کہانی میں ایک تناسب ہے کہ جس نے مجھے اس دن کی ایک اور چیز کو یاد دلایا اور جس پر مجھے اس بھی زیادہ گہرا احساسِ جرم ہونے لگا۔ میرے لیے یہ سوٹ کیس چھوڑ کر جانے سے 23 سال قبل اور 22 سال کی عمر میں ناول نگار بننے اور باقی سب کچھ تج دینے کا فیصلہ کرنے اور اپنے آپ کو کمرے میں بند کرلینے کے 4 سال بعد مَیں نے اپنا پہلا ناول ’’جودت بے اور فرزندان‘‘ مکمل کیا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس غیر مطبوعہ ناول کا ٹائپ شدہ مسودہ اپنے والد کو پڑھنے کے لیے دیا، تاکہ وہ اسے پڑھ لیں اور مجھے بتائیں کہ ان کو کیسا لگا! یہ محض اس لیے نہیں تھا کہ مجھے ان کے ادبی ذوق اور ذہانت پر اعتماد تھا، ان کی رائے میری لیے بہت اہم تھی کہ میری ماں کے برخلاف انھوں نے ادیب بننے کی میری خواہش کی مخالفت نہیں کی تھی۔ اُس وقت میرے والد ہمارے ساتھ نہیں تھے بلکہ ہم سے بہت دور تھے۔ مَیں بڑی بے صبری کے ساتھ ان کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔ جب وہ دو ہفتے بعد واپس آئے، تو دروازہ کھولنے کے لیے مَیں بھاگتا ہوا پہنچا۔ میرے والد نے کچھ نہیں کہا، اپنے بازو میرے گرد اس طرح حمایل کر دیے جس سے مجھے پتا چل گیا کہ ان کو بہت اچھا لگا۔ کچھ دیر کے لیے ہم اس طرح کی بے تکلف خاموشی میں گھر گئے جو اکثر شدتِ جذبات کے لمحوں کے ساتھ چلی آتی ہے۔ پھر جب وہ سکون سے بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے، تو میرے والد نے توانائی سے بھرپور اور مبالغہ آمیز انداز میں، مجھ پر اور میرے پہلے ناول پر اپنے اعتماد کا اظہار کرنا شروع کیا۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ ایک دن میں وہ انعام (نوبل انعام) ضرور حاصل کروں گا، جو آج مَیں اتنی زیادہ خوشی کے ساتھ وصول کرنے آیا ہوں۔ انھوں نے یہ اس لیے نہیں کہا کہ وہ مجھ کو اپنی مُثبت رائے کا یقین دلانا چاہ رہے تھے یا اس انعام کو میرے لیے ایک ہدف بنا رہے تھے۔ انھوں نے یہ بات ایک ترک باپ کی طرح کہی جو اپنے بیٹے کو سہارا دینے کے لیے یہ کَہ کر اس کا حوصلہ بڑھانا چاہ رہا تھا کہ ایک دن تم پاشا بنوگے! کئی برس تک جب بھی وہ مجھے دیکھتے حوصلہ افزائی انھیں الفاظ میں کرتے! وہ دسمبر 2002ء میں انتقال کرگئے۔
آج جب کہ میں سویڈش اکیڈمی اور اس کے معزز ارکان کے سامنے کھڑا ہوں، جنھوں نے مجھے یہ انعام عطا کیا…… اور یہ اعزاز…… اور معزز مہمانوں کے سامنے میری بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ بھی میرے درمیان ہوتے ……!‘‘
(بحوالہ ’’ذہن جدید رسالہ‘‘ مترجم ’’آصف فرخی‘‘)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے