برطانوی حکام سنجیدگی کا مظاہرہ فرمائیں!

گذشتہ روز جو کچھ ہوا یہ پاکستانی سیاست نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کی رہی سہی عزت کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے۔ یہ سب کچھ نفرت، شرانگیزی اور فتنہ کی بنیاد پر سیاست اور ذاتی اقتدار حاصل کرنے کے فسطائی ہتھکنڈے ہیں…… جو اس ملک پر قابض ’’پردہ نشینوں‘‘ کی فکر کی پیداوار ہیں۔
گذشتہ روز لندن کی سڑکوں پر عمران کے غنڈا نما حواریوں نے پاکستان کی خاتون وفاقی وزیر مریم اورنگزیب کا پیچھا کیا۔ حتی کہ وہ ایک کافی شاپ میں داخل ہوئیں، تب بھی یہ ان کے پیچھے جاکر ’’چور، چور‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ اس طرح کے کھاتوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کے والدین برطانیہ جاکر وہاں کی شہریت حاصل کرچکے ہیں اور پاکستان کے ساتھ ان کا واسطہ یا تعلق اتنا ہوتا ہے کہ سالوں بعد وہ ولایتی بابو بن کر چند ہفتوں کے لیے یہاں اپنی چوہدراہٹ دکھانے آدھمکتے ہیں۔ ان کے یہ بے پروا بچے زیادہ تر ریاست کی دی ہوئی سوشل سیکورٹی کی خیرات پر پل کر اکثر وہ حرکتیں کر بیٹھتے ہیں جو بسا اوقات پچھلے تعلق کی بنا پر پاکستان کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہی بچے مختلف حیلوں بہانوں سے وہاں پہنچ کر ریسٹورانٹ، بیکری، سپر سٹور، گوشت کی دکانوں وغیرہ پر گھنٹوں کے حساب سے پارٹ ٹائم ملازمت کرتے ہیں اور فارغ وقت میں پچاس پاونڈ فی گھنٹے کی اجرت پر اس قسم کے مظاہروں میں حصہ لے کر نعرے بازی کرتے ہیں۔
لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ لوگ پھر بھی پاکستان میں انقلاب لانا چاہتے ہیں اور وہ بھی ’’عمرانی انقلاب……!‘‘
پراپیگنڈا کے زور پر، خصوصاً گذشتہ گیارہ سال سے، عمرانی حواریوں کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ باقی سب سیاست دان، چور اور ڈاکو ہیں۔ جب کوئی ان سے پوچھتا ہے کہ آپ یا پی ٹی آئی کے پاس ان ’’چوروں‘‘ کے خلاف کوئی ثبوت ہے، تو کہتے ہیں کہ ان کی شکلیں چوروں کی ہیں۔
اور جب سوال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے کتنوں کے خلاف عدالتوں نے چوری پر سزا سنائی ہے، تو بلا توقف نواز شریف کے خلاف پانامہ کے فیصلے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اگر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ فیصلہ آپ نے پڑھا ہے، کیا وہ سزا نواز شریف کو کرپشن پر دی گئی ہے یا اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر؟ تو جواب یہ ہوتا ہے کہ کیا یہ ساری دنیا جھوٹ بولتی ہے؟ پھر جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کون سی دنیا……؟ تو بتاتے ہیں کہ کیا آپ ٹی وی نہیں دیکھتے……؟ میڈیا پر تو یہی کہا جاتا ہے۔
پھر جب کوئی ان کو تھوڑا اور ٹٹول کر پوچھتا ہے کہ میڈیا نے احتساب عدالت کے فیصلے کی یہ تفصیل بتائی ہے کہ نوازشریف اپنے بیٹے کی کمپنی میں ڈائریکٹر ہے اور اس حیثیت میں اس کی تنخواہ بنتی ہے…… لیکن مذکورہ تنخواہ کو گوشواروں میں نہیں دِکھایا گیا۔ وہ تنخواہ جو نواز شریف نے کبھی وصول نہیں کی تھی، لیکن احتساب عدالت پھر بھی اس کو آمدنی کی گوشوارے میں دکھانے پر بضد تھی اور اس ’’جرم‘‘ کی وجہ سے ان کو سزا دے کر نا اہل کیا گیا۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو پاکستان کی ریاستی اور خصوصاً ریاستی نظامِ انصاف کے ماتھے پر بد نما داغ بن کر دنیا میں رسوائی کا سبب بنا ہوا ہے…… لیکن پھر بھی ’’بد اچھا، بد نام برا‘‘ والی بات ہے۔
مزید برآں 2014ء سے عموماً اور 2018ء سے خصوصاً ریاست کے تمام کل پرزے نوازشریف اور مسلم لیگ ن کے دشمن بن کر اُن کی دھجیاں اُڑانے پر تلے ہوئے تھے اور باوجود ن لیگ کی قیادت کی گرفتاریوں کے ان کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس ثابت نہ کرسکے، لیکن پی ٹی آئی اب تک’’چور‘‘ اور ’’ڈاکو‘‘ والے نعروں کا سہارا لے رہی ہے۔ ان نعروں کو لگانے والوں کو آج کل یہ کبھی میر جعفر اور میر صادق، کبھی ایکس اور کبھی وائی کَہ کر پکارتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست اور سیاست دانوں کو گالی بناکر پیش کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ کیوں کہ یہ سلسلہ 70 سالوں سے چل رہا ہے۔ پچھلی ایک دہائی سے سیاست کو بدنام کرنے والی طاقتیں یہ کام ایک سیاسی جماعت سے لیتی تھیں…… لیکن اس قوم کی آنکھوں پر وہ پٹیاں باندھی گئی ہیں کہ اب اس بات کو سمجھنے تک سے قاصر ہے کہ اصل میں ان کے ساتھ ہاتھ کس نے کیا……! اس لیے شاید یہ اپنے کان کو چیک کرنے کی بجائے کتے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ اس ملک کا 15 سے 17 فی صد بجٹ سویلین سیاست دان یا نام نہاد حکم رانوں کے دسترس میں ہوتا ہے، جس میں تمام عوامی ضروریات اور فلاحی کام مثلاً صحت، علاج، شاہراہیں اور دیگر ترقیاتی منصوبہ جات و تعمیرات وغیرہ (ظاہر ہے کرپشن بھی) لیکن باقی 83 سے 85 فی صد بجٹ کے ساتھ کیا ہوتا ہے…… یہ کہاں اور کیسے خرچ ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں عوام جانتے ہیں نہ اس پر کوئی بول سکتا ہے اور نہ سوال ہی اُٹھا سکتا ہے۔
ہاں! اگر کوئی پوچھنے کی معمولی سی جسارت یا ارادہ کر بھی لے، تو اس کا حشر بھٹو، بے نظیر یا نواز شریف جیسا ہوتاہے۔
عمران خان کا مسئلہ یہ نہیں کہ وہ ایسے سوالات پوچھیں یا عوام کے لیے کچھ کریں…… ان کی پونے چار سالہ وفاق اور پی ٹی آئی کی 9 سالہ صوبائی حکم رانی کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے۔ اُن کے دور میں کرپشن پچھلے حکومتوں کی نسبت بڑھ گئی ہے، کم نہیں ہوئی۔ تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے اُن کی حکومت کے دوران میں لیے گئے ہیں اور ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔
عمران کا مسئلہ جمہوریت ہے نہ آئینی و عوامی بالادستی…… ترقی ہے نہ مہنگائی…… بلکہ اُن کا اصل مقصد ’’غیر جمہوری طاقتوں‘‘ سے دوبارہ کرسی مانگنا ہے۔ اور یہ شاید اُن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
یہ مہنگائی کا طوفان ان کی پالیسیوں، حرکتوں اور واردات کا نتیجہ ہی تو ہے، جس کا ٹوکرا شہباز شریف نے شیروانی پہننے کے شوق میں اپنے سر اُٹھا رکھا ہے۔
شہباز شریف، زرداری یا مولانا سے میری کوئی ہم دردی نہیں۔ سیاسی سودے بازی کے نتایج یہ بھگتیں…… لیکن تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ برطانوی پاسپورٹ اور اظہارِ رائے کی آزادی کی آڑ میں کسی غیر ملک میں ایک خاتون وزیر کو ہراساں کرکے ملکی وقار کا جنازہ نکالیں۔ مریم اورنگ زیب کے خلاف کون سی عدالت میں کرپشن کا کیس ثابت ہوا ہے…… اور کون سی عدالت سے انھیں سزا ملی ہے؟
برطانوی حکام کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ان کے شہری کسی دوسرے ملک کے نمایندے کو کس بنیاد پر ہراساں کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں؟ کیا یہ سیاسی مداخلت کے زمرے میں نہیں آتا……؟
اور سب سے اہم بات…… اظہارِ رائے کی آزادی اور ہراسگی میں حدِ فاصل واضح کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک بالکل غلط مثال قایم ہو رہی ہے، خواہ وہ ایک فرد اور سیاسی جماعت کے مذموم ذاتی سیاسی مقصد کے لیے ہی کیوں نہ ہو……! لیکن کل اگر اس کو بنیاد بناکر برطانیہ کے سابق نو آبادیات سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن جو اَب خیر سے برطانوی شہری ہیں، اپنے آبا و اجداد اور ممالک کے ساتھ کیے گئے سلوک کے خلاف برطانیہ میں احتجاج شروع کردیں، تو کیا حکومتِ برطانیہ ان کو یہ حق دے گی؟
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے