’’خوض‘‘ (عربی، اسمِ مذکر) کا اِملا عمومی طور پر ’’غور و خوض‘‘ (مرکبِ عطفی) میں’’خوص‘‘ تحریر کیا جاتا ہے۔
’’نور اللغات‘‘، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ اور ’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘ کے مطابق درست اِملا ’’خوض‘‘ ہے جب کہ اس کے معنی ’’فکر‘‘ اور ’’سوچ‘‘ کے ہیں۔ ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ کے مطابق: ’’اصل میں اس کے معنی غوطہ لگانا، اندر گُھسنا کے ہیں۔‘‘
رشید حسن خان کی کتاب ’’اُردو کیسے لکھیں؟ (صحیح اِملا)‘‘، مطبوعہ ’’رابعہ بُک ہاؤس‘‘ کے صفحہ نمبر 111 پر بھی ’’خوض‘‘ ہی درج ہے۔
دوسری طرف اُردو کے کئی موقر نشریاتی اداروں نے مذکورہ لفظ کو اپنی رپورٹوں میں جا بہ جا ’’غور و خوص‘‘ رقم کیا ہے۔
اس حوالےسے سب سے معتبر حوالہ حضرتِ مسعود حساسؔ کی ایک غزل ہے جس کی ردیف ’’غور و خوض‘‘ ہے، مطلع ملاحظہ ہو:
ایک کشتی کاغذی پر غور و خوض
ہوگا میری سادگی پر غور و خوض