ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ میدان کھیل کا ہو یا معاشرے میں کہیں کونے کھدرے میں بچی کچی ثقافت سے جڑے خوشیوں بھرے میلوں ٹھیلوں کا، معاشرے میں چہار سو رنگ سے بکھیر دیتے ہیں۔ کچی عمر میں اوائل کی جماعتوں کی اُردو کی درسی کتاب میں ایک گاؤں اور اس میں لگے میلوں کی جو تصویر کھینچی گئی تھی، آج بھی ان میں بکنے والے لڈو کی مٹھاس رنگ برنگے شربتوں کا وہ ٹھنڈا احساس اور بچوں کے ساتھ اٹکیلیاں کرنے والے اس ناچتے جوکر کی وہ خوبصورت تصویر بھولے نہیں بھولتی۔وہ آج بھی ذہنوں میں ایک خاص طلب کا احساس لئے ہمارے دل دماغ میں کہیں نہ کہیں موجود ہے اور کبھی کبھی موسم گرما کی نیم گرم دوپہر کے لمحات میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔شدت کے دھوئیں میں سانس لیتا من ہی من میں خود سے باتیں کرتا ہواشخص ہونٹوں پر ایک میٹھی سی مسرت لئے کبھی تو یہ سوچتا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ ان میلوں ان تماشوں کو اب بھی کس قدر ترستا ہے جس کو ہم سے کوسوں دور کرکے ہمارے دلوں میں فتوؤں کا ڈر اور تنگ نظری ڈال دی گئی۔ کس قدر نفرت کا احساس پیدا کیا گیا کہ ہمیں ایک دوجے کی گردنیں اُتارنا بالکل ایسا ہی کھیل لگتا ہے، جیسے بچپن میں بغیر کسی ڈراورخوف کے نقلی بندوقوں سے کھیل کھیل میں ایک دوسرے کو قتل کردیتے تھے۔ شدت کا ایسا ماحول کہ معاشرہ بدامنی ختم کرنے کانام لیتا ہے، تو ’’نہیں بیٹا!‘‘ کا کوئی نہ کوئی، کہیں نہ کہیں سے ’’بزر‘‘ بج ہی جاتا ہے۔
خطرے کی گھنٹی تو تب بجی جب بیٹھے بیٹھے یہ خیال آیا کہ میڈیا پر بیٹھے نفرت کے بیج بونے والے، مذہب کا غلط استعمال کرنے والے نام نہاد اینکرز کا اثر لینے والا طبقہ، ہمارے ہاں ایک بہت وسعت رکھتا ہے۔ اثر لینے والوں میں بہت سے لوگ وہ نوجوان بھی ہیں جو ملک کی بیشتر جامعات میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس طرح ملک کی آنے والے دنوں کی صحافت کی بگڑی ہوئی شکل کی تصویر جب تصور میں لائی جائے، تو اس وقت کے حالات آج سے کئی گنا زیادہ خراب نظر آتے ہیں۔ جامعات میں شدت پسندی کا بڑھتا رجحان اس بات کی مزید تصدیق کرتا ہے اور خوف کے بادل مزید گہرے کر دیتا ہے کہ آج جہاں گردنیں اُتارنے والوں کی کھلے عام حمایت اور پذیرائی ہو رہی ہے، تو کل کا منظر تو تصور کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ کیا یہ خطرے کی وہ گھنٹی نہیں ہے جس کے لئے ہمیں اپنے کانوں پر رکھے ہاتھ ہٹا لینے چاہئیں اور تفریق، نفرت اور اس سے متعلقہ معاشرے میں کوئی بھی تصور جہاں ملے مٹا دینا چاہئے۔ یہ توآنے والی نسل کے ساتھ کھلے عام مذاق ہورہا ہے۔ اس سے بڑا مذاق اس دور کی ڈگری کلاسز کو پڑھائی جانے والی کتابوں میں اندر کے صفحات میں نفرت انگیز مواد کو چھاپ کر کیا جارہا ہے جس کا حال ملاحظہ ہو۔
ابھی کل ہی سماجھی رابطے کی سائٹ پر ایک پوسٹ گردش کررہی تھی جس میں سکھ کمیونٹی، پٹھان اور قبائلی اقوام کے خلاف زہر اُگلا گیا ہے۔ عام کتب تو یوں ہزار ہوں گی جن میں ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ حملے فتوے اور نفرت پر ابھارنے والا مواد ہوا کرتا ہے، مگر یہ عام کتاب نہیں ایک خاص تعلیمی بورڈ سے ملحقہ ڈگری کے طلبہ کو پڑھائی جانے والی ’’پاکستان اسٹڈیز‘‘ کی کتاب ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسی طرح کی ایک اور کوشش پکڑی گئی تھی۔ ٹگہ اینڈ سنز کے نام سے دو بھائیوں کو ایک تعلیمی بورڈ کی جانب سے سوشیالوجی کی انٹرمیڈیٹ کی کتاب چھاپنے کا موقع ملا اور انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے پختونوں اور بلوچوں کے خلاف ایسا زہر اُگلا جیسے یہ کتاب صرف ایک ہی صوبے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے لکھی گئی ہو۔ دوسرے صوبوں اور ذاتوں کے لوگ اس کو پڑھ کر یہی سمجھیں کہ آپ پختون تو ہیں، آپ بلوچ تو ہیں لیکن سچی پاکستانیت صرف ایک ہی صوبے سے ٹپکتی ہے۔ اس قسم کے رویے معاشرے میں بدامنی اور نفرت کے بیج بونے کی کھلے عام کوشش ہے جس کو روکنے کے لئے باقاعدہ مہم جوئی ہونی چاہئے اور ایسی حکمت عملی طے کرنے کی فی الفور ضرورت ہے جو ملک میں یوں تقسیم کے بیج بوکر، ملک کو مزید نقصان دینے کے درپے ہیں۔نہایت ہی اہمیت کا حامل یہ سوال ہے کہ ہمارے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں میں سے اہم کرداروں کو اقلیتوں کے مسائل اجاگر کرنے والے ان کے حقوق کی بات کرنے والے تو ملک دُشمن لگتے ہیں، مگر اس کھلے عام گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد جو تقسیم کا بیج دکھا کر بورہے ہیں، نظر کیوں نہیں آتے؟ ایک رائے کے مطابق شائد کہ محب الوطنی کا پہاڑا اگر صحیح سمت سے شروع کیا جائے، تو بات شر پر نہیں خیر پرجا کر ختم ہوگی۔ راستے میں یہاں وہاں کی جمع تفریقیں کبھی صحیح منزل کا پتا نہیں بتا سکتیں۔
اسی طرح ہمیں اس مسئلے کو حل کرکے کسی اگلے مسئلے کا انتظار کرنے کی بجائے ایک مؤثر تعلیمی پالیسی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ استاد گرامی جناب شاہد ملک صاحب کا روزنامہ پاکستان کے لئے لکھے گئے کالم میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بالکل صحیح ہے کہ نوجوان خود بھی اس سب صورتحال کے ممکنہ طور پے کہیں نہ کہیں ذمہ دار ضرور ہیں، مگر یہ بھی تو سسٹم کے نہ ہونے یا بے سمت ہونے کے نتائج میں سے ایک ہوا ناں! آج کا دور کس چیز کا تقاضا کرتا ہے، ہمیں اس چیز کا ہی تو علم نہیں ہے؟ ہمیں کس فرشتے نے آکر بولا ہے کہ اس سال یا اگلے کئی سال ہمیں فلانی فیلڈ کے انجینئر یا فلانے ڈاکٹروں کی اشد ضرورت رہے گی؟ لہٰذا پالیسی کے مطابق ہر آنے والے کو بھرتی کرلیا جائے، تاکہ ضرورت کے وقت آدمیوں میں ’’کمی‘‘ واقع نہ ہو۔ ’’بیشی‘‘ کی خیر ہے کہیں بھی کھپ جائیں گے۔اگر ایسا ہی ہے، تو ہزاروں اکاونٹینٹ، ہزاروں انجینئر اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کی تعداد میں گریجویٹس اس وقت بے روزگاری کے عالم میں دربدر نہ پھر رہے ہوتے۔ کہئے کہ یہ تمام بھی اس بھائی کی طرح ہیں جو انٹرویو میں سعودی عرب کے پاکستان کے حساب سے سمت کا تعین نہیں کرسکا تھا۔ اس بات کو بھی تو تسلیم کرنا نہایت ضروری ہے کہ معاشرے میں ڈیمانڈ کاحساب لگانے والے کسی سافٹ وئیر کا ہونا اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بے روزگار گریجویٹس کا صحیح حساب دینے والی کسی ایپلی کیشن کی خدمات لینے میں کوئی حرج نہیں، جس سے یہ معاملہ حل کی جانب ’’آدھ، پونا‘‘ قدم اُٹھائے تو۔ معاشرے میں مایوسی کے ایک وسیع تر تاثر کو ختم کرنے کی جانب ایک بہترین قدم ہوسکتا ہے کہ طلبہ جن کے اوپرریاست سب سے زیادہ توجہ دینے کے دعوے کرتی ہے، کو عملاً جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس کی ضرورت پر زور دینا چاہئے۔ نعرے وعدوں کا یہ دور تھوڑی ہے؟ آگے نکلنا ہے، تو معاملات کو عملی طور پر آگے لے جانے کی طرف قدم دھرنا ہوں گے۔طلبہ میں فرسٹریشن سے اور زندگی کی چِک چِک سے تنگ آکرخودکشی کا راستہ اختیار کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ بحیثیت ریاست اس موضوع پر ایک دو جملے کس دینا یا پروگرام کرلینے سے اور رات گئی بات گئی والا ’’ایٹی چیوڈ‘‘ اپنا لینے سے مسئلہ کم نہیں ہوگا بلکہ ہمارا اجتماعی غیر سنجیدہ رویہ اس رجحان کو ایک عام کھیل بنا سکتا ہے۔مسائل کی سنجیدگی کو بھانپنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور ان کو حل کی جانب لے جانا اس سے بھی زیادہ اہم۔
جاتے جاتے ایک اہم گزارش یہ بھی کرنی مقصود ہے کہ ہر تنقید، تنقید برائے تنقیدنہیں ہوتی۔ اگر دیکھا جائے، تو کالم نگار اپنے خیالات کا اظہار معاشرے کے وسیع تر مفاد میں کررہا ہوتا ہے۔ اُسے بھی اس ملک کا وہ چہرہ دیکھنے اور دکھانے کی طلب ہوتی ہے جو کبھی اُداس نہ ہو، وہ مزاج جو کہ امن کا مزاج بن کر اُبھرے اور ایسا مضبوط ملک جسے اندرونی اور بیرونی خطرات کی کھٹک نہ ہو۔خیالات کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کی بنیاد پر ٹیگز لگانا کوئی بہت مناسب رویہ نہیں ہے۔ مہذب معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب ہمیں خواب مہذب قوموں کے دیکھنے ہیں، تو ہمیں ان کے طور طریقوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں خیالات کی ناپسندیدگی کو بنیاد بنا کر سیاسی ٹیگز لگادیئے جائیں اور پھر تشدد پر اُتر آنا نہایت قابل مذمت امر ہے۔ یاد رکھیں، احمد نورانی صاحب ہوں یا کوئی بھی صحافی، تشدد کے رویے سے آج تک نہ قلم روکے جاسکے ہیں اور نہ کبھی آئندہ ایسا ہونا ممکن ہے۔
…………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔