’’خورخے لوئیس بورخیس‘‘ کی کہانی کا جایزہ

تبصرہ: احمد بلال
’’خورخے لوئیس بورخیس‘‘ (Jorge Luis Borges) نے 1941ء میں ایک کہانی لکھی تھی ’’دَ گارڈن آف فورکنگ پاتھس‘‘(The Garden of Forking Paths)، جس کا کام چلاؤ سا اُردو ترجمہ ہوگا ’’گھومتے گھماتے راستوں کا باغ۔‘‘ یہ تہہ دار کہانی ایک چینی ڈاکٹر یوسُن کے دستخط شدہ بیان پر مشتمل ہے۔ چینی پروفیسر دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں نازی جرمنی کے جاسوس کی حیثیت سے برطانیہ میں رہ رہا ہے۔ چینی پروفیسر کو ایک روز پتا چل جاتا ہے کہ برطانوی خفیہ ایجنسی ’’ایم آئی فائیو‘‘ کا ایک اہل کار برطانیہ میں اُس کے رابطۂ کار تک پہنچ چکا ہے اور اب کسی بھی لمحے خود اُس تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اپنی تقریباً یقینی گرفتاری سے پہلے پہلے اسے ایک آخری کام کرنا ہے اور وہ یہ کہ اسے برطانوی توپ خانے کے ایک ذخیرے کا پتا چلا ہے اور وہ یہ پتا اپنے جرمن دوستوں کو بتانا چاہتا ہے۔
جس جگہ برطانوی توپ خانے کا ذخیرہ موجود ہے، اس کے قریب ہی ایک ماہر چینیات ڈاکٹر سٹیفن البرٹ بھی رہتا ہے۔ چینی پروفیسر اسے ملنے جاتے ہوئے راستے میں اپنے آبا و اجداد میں سے ایک شخص کو یاد کرتا ہے جس نے اپنی زندگی دو اہم ترین کاموں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ایک کام، ایک ایسا ناول لکھنا تھا جو بہت ضخیم و عریض ہو اور جس میں کئی چھوٹی کہانیاں آپس میں انتہائی مشکل سے نظر آنے والے راستوں کے ذریعے ملی ہوئی ہوں۔ جب کہ دوسرا کام، ایک ایسی بھول بھلیاں تیار کرنا تھا جو ناول ہی کی طرح ضخیم ہو اور جس کے راستے اس کے مجوزہ ناول ہی کی طرح پیچیدہ ہوں…… مگر پھر ہوا یہ کہ یہ دونوں کام مکمل ہونے سے پہلے کسی نے اسے قتل کر دیا۔
چینی پروفیسر جب ڈاکٹر سٹیفن البرٹ کے گھر پہنچتا ہے، تو ڈاکٹر البرٹ یہ جان کر بہت خوش ہوتا ہے کہ وہ اسی شخص کی اولاد میں سے ایک شخص سے متعارف ہو رہا ہے جس کے ناول اور بھول بھلیوں کے بارے میں وہ تحقیق کرتا رہا تھا۔ ڈاکٹر البرٹ چینی پروفیسر کو بتاتا ہے کہ وہ اس کے چینی پردادا کے ناول اور بھول بھلیوں دونوں کا معما حل کر چکا ہے، اور وہ حل یہ ہے کہ ناول اور بھول بھلیاں درحقیقت ایک ہی چیز ہیں؛ یعنی ناول بھول بھلیاں بھی ہے اور ناول بھی۔
ڈاکٹر البرٹ چینی پروفیسر کو بتاتا ہے کہ چینی ناول میں راستوں کی کثرت مکان میں نہیں، زمان میں ہے؛ یعنی وہ ناول اپنے کئی راستے ایک ہی وقت کے مختلف علاقوں میں پیش نہیں کرتا بلکہ وہ راستے وقت میں کافی آگے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر البرٹ کے مطابق چینی ناول نگار اپنی کہانی کے دوران میں کسی واقعے کے ایک سے زاید نتیجے پیش کرتا چلا جاتا ہے اور ان نتایج سے نکلنے والے مختلف راستے کہیں آگے جاکر آپس میں مل جانے کا امکان بھی رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر البرٹ ایک آخری حیرت انگیز انکشاف یہ کرتا ہے کہ ناول میں خود اس کا اور اس سے ملنے آنے والے چینی پروفیسر کا بھی ذکر ہے اور یہ ذکر بھی ہے کہ چینی پروفیسر اُسے ملنے بیک وقت دو راستوں سے آیا ہے۔ ایک راستے سے دوست بن کر اور دوسرے سے دشمن بن کر۔ چینی پروفیسر ان حیرت انگیز انکشافات پر ششدر رہ جاتا ہے…… لیکن وہ ڈاکٹر البرٹ سے ملنے جن دو راستوں پر چلتا ہوا آیا ہے، اُن میں سے ایک سے بھی وہ انحراف نہیں کرسکتا، اور نہ وہ اُن میں سے کسی ایک راستے پر چلنے کی تقدیر سے اجتناب ہی کرسکتا ہے۔ درحقیقت ڈاکٹر البرٹ کی سنائی ہوئی کہانی نے اسے خود اُس کی اپنی کہانی کے لیے بھی ایک راستہ سجھا دیا ہے؛ وہ ڈاکٹر البرٹ کا شکریہ ادا کرتا ہے اور پھر اپنا پستول نکال کر اُسے قتل کر دیتا ہے۔
کہانی کا خلاصہ آپ نے پڑھا ؛ دلچسپ لگا ہوگا، اور شاید پیچیدہ بھی…… لیکن یہاں میرا سروکار کہانی کے حیرت انگیز پلاٹ سے نہیں…… بلکہ میں آپ کی توجہ کہانی کے کردار اس چینی ناول نگار کی جانب دلانا چاہتا ہوں جس نے ایک ایسے ناول کا منصوبہ بنایا جس میں کہانی کو آگے بڑھانے والے امکانات کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ قاری ان میں کھو کر رہ جائے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے