ڈاکا

’’ڈاکا‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا املا عام طور پر ’’ڈاکہ‘‘ رقم کیا جاتا ہے۔
’’نوراللغات‘‘، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘، ’’جدید اُردو لغت‘‘ اور ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ کے مطابق دُرست املا ’’ڈاکا‘‘ ہے جب کہ اس کے معنی ’’ڈاکوؤں کا حملہ‘‘، ’’وہ لوگ جو غارت گری کے لیے کسی کے گھر میں کود پڑیں‘‘ ، ’’چوروں کا حملہ‘‘، ’’غارت گری‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
جہانگیر اُردو لغت (جدید) کے مطابق ’’ڈاکہ‘‘ بھی رقم کیا جاسکتا ہے۔ نوراللغات کے مطابق: ’’سحرؔ نے ڈانکا کہا ہے، لیکن اب بول چال میں ڈاکا ہی ہے۔‘‘ صاحبِ نور نے ’’ڈانکا‘‘ کے ذیل میں حضرتِ سحرؔ کا یہ شعر بھی حوالتاً درج کیا ہے:
جلا کر ٹھوکروں سے نقد دل مردوں سے لیتے ہیں
سحر شہرِ خموشاں میں بھی اب پڑنے لگا ڈانکا
صاحبِ نور و آصفیہ دونوں نے محاوروں میں بھی اِملا ’’ڈاکا‘‘ ہی کو ترجیح دی ہے جیسے ’’ڈاکا پڑنا‘‘، ’’ڈاکا ڈالنا‘‘، ’’ڈاکا مارنا‘‘ وغیرہ۔
اس حوالے سے اکبر اِلہ آبادی کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے