ملکی نظام بیٹھ گیا، تو ذمے دار کون ہوگا؟

آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 17 (3) کے مطابق ہر سیاسی پارٹی یا جماعت پابند ہے کہ وہ قانون کے مطابق مالی وسایل کے ذرایع کا حساب دے۔ مجوزہ قانون کی رو سے کسی بھی غیر ملکی حکومت، کثیر القومی یا مقامی طور پر شامل عوامی یا نجی کمپنی، فرم، تجارتی یا پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن کی طرف سے براہِ راست یا بالواسطہ کسی بھی قسم کا مالی تعاون ممنوع ہوگا۔ اگر کسی بھی پارٹی کو فارن فنڈنگ ملنے کے ثبوت ہاتھ آئے، تو اس کو تحلیل کیا جائے گا اور اُس کی رکنیت رکھنے والے عوامی نمایندے بھی نااہل قرار دیے جائیں گے۔
افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے اپنے مالی وسایل کے ذرایع ہمیشہ چھپاتے رہے ہیں…… جو جرم کے مترادف ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی رکن ایس اے بابر نے جب عمران خان سے پارٹی فنڈنگ کے بارے میں سوال کیا، تو عمران خان نے حساب کتاب دینے سے انکار کر دیا کہ پارٹی کو سالانہ کتنے فنڈز کہاں سے ملتے ہیں، فنڈز کو کہاں اور کیسے خرچ کیا جاتا ہے؟ عمران خان کے انکار پر آج سے 8 سال پہلے (2014ء) کو ایس اے بابر نے الیکشن آف پاکستان سے رجوع کیا۔ پی ٹی آئی حیلے بہانوں اور تاخیری حربوں سے کام لیتی رہی، تاکہ اسے حساب کتاب نہ دینا پڑے۔ کبھی الیکشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کیا گیا، کبھی ہارئی کورٹ سے حکمِ امتناعی حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں، تو کبھی سپریم کورٹ جایا جاتا رہا۔ تاخیری حربوں سے پی ٹی آئی، فارن فنڈنگ کیس 8 سال تک لٹکائے رکھنے میں کامیاب رہی۔
دیگر سیاسی پارٹیوں کا مطالبہ ایک طرف…… لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان (اِی سی پی) بطورِ ادارہ عدالتی حکم پر کوئی نہ کوئی فیصلہ دینے کا پابند تھا۔ آخرِکار ’’ای سی پی‘‘ نے گذشتہ دنوں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ’’ای سی پی‘‘ نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے متعدد غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی شہریوں سے رقوم (چندہ) وصول کی ہیں…… لیکن پی ٹی آئی نے چندے کی تفصیلات سے ’’اِی سی پی‘‘ کو آگاہ نہیں کیا…… جو قواعد و ضوابط کے مطابق سالانہ مالیاتی معلومات فراہم کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ’’اِی سی پی‘‘ نے مذکورہ بالا قانون، پولی ٹیکل پارٹیز آرڈر 2022ء (پی پی اُو 2022ء) اور سابق پولی ٹیکل پارٹیز ایکٹ 1962ء اور موجودہ الیکشن ایکٹ 2022ء کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے حکومت سے کارروائی کی سفارش کی ہے۔
فارن فنڈنگ کا فیصلہ آنے پر پی ٹی آئی ’’اِی سی پی‘‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے نزدیک ’’اِی سی پی‘‘ نے وزارتِ قانون کا تحریر کردہ فیصلہ حکومت کے کہنے پر پڑھ کر سنایا ہے۔ ’’اِی سی پی‘‘ حکومتی اتحادی اور آلہ کار بن چکا ہے۔ عدالتی حکم کے مطابق ’’ای سی پی‘‘ کو دیگر پارٹیوں کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ پی ٹی آئی کے فیصلے کے مطابق سنانا چاہیے تھا، جو کہ الیکشن کمیشن نے نظر انداز کیا۔
پی ٹی آئی نے وار کرتے ہوئے الیکشن کمشنر آف پاکستان کے خلاف پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی سے قرار دادیں بھی منظور کر وا دی ہیں۔ پی ٹی آئی، الیکشن کمشنر کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس دایر کرکے واپس بھی لے چکی۔ ریفرنس واپس لینے کا یہ جواز پیش کیا کہ ہم ریفرنس واپس لے نہیں رہے بلکہ اس میں مزید قانونی نِکات شامل کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے جمعرات کو شام چھے بجے ’’ای سی پی‘‘ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور اس پر الزامات لگائے۔
اب حکومت پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ملکی سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے اقدامات کرے…… مگر حکومت اور اتحادیوں نے حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور عمران خان سمیت دیگر ارکانِ اسمبلی کو نااہل قرار دینے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ عمران خان اور پارٹی کے دیگر مرکزی اور صوبائی قایدین کے پیچھے ایف آئی اے کے اہلکاروں کو لگا دیا ہے جو پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائی میں لگے ہوئے ہیں۔ اب تک چار ملازمین کا بیان ریکارڈ کیا جاچکا ہے۔ ایف آئی اے پشاور زون نے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، لاہور زون ایف آئی اے نے محمود الرشید اور کراچی ایف آئی اے نے سابق گورنر عمران اسماعیل کو طلب کیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی توشہ خانہ کیس ’’اِی سی پی‘‘ بھیج بھی چکا ہے۔
اس طرح ’’اِی سی پی‘‘ نے پی ٹی آئی کے مستعفی ہونے والے ارکانِ قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر الیکشن کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔ فارن فنڈنگ کیس میں ’’اِی سی پی‘‘ نے عمران خان کو 23 اگست اور پی ڈی ایم نا اہلی کیس میں 18 اگست کو طلب کیا ہے…… جو پی ٹی آئی کو مزید اشتعال دلانے کا سبب بنتا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات قایم کرنے اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مزید گرفتاریوں کے ساتھ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ دایر کرچکی ہے۔ حکومتِ پنجاب، پی ٹی آئی کے جلسے میں جانے والوں پر آنسو گیس استعمال کرنے اور کارکنوں پر تشدد کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی جیسے اقدامات کر رہی ہے جس کی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ ابتدائی طور پر بعض پولیس اہلکاروں کو معطل بھی کیا گیا ہے۔
حاصلِ نشست یہی ہے کہ اتحادی حکومت بظاہر تو ملک کو بچانے کا راگ الاپ رہی ہے، لیکن عملی اقدامات سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ ملک کو تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی بھی کچھ کم نہیں۔ اگر ملکی نظام بیٹھ گیا، تو اس میں دونوں برابر کے شریک ہوں گے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے