عوام آخر جائیں، تو جائیں کہاں؟

بدقسمتی سے پاکستان میں حزبِ اختلاف والے وقت کے حکم رانوں کو حسبِ روایت بڑھتی ہوئی کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کا ذمے دار ٹھہراتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ عوام سے کھوکھلے وعدے کرکے اور جھوٹ اور مکر و فریب سے سبز باغ دکھا کر کہتے ہیں کہ اگر عوام نے انہیں ووٹ دے کر اقتدار میں لایا، تو یہ عوام کے مسایل چٹکی بجا کر حل کریں گے۔
اور جب یہی حزبِ اختلاف والے عوام کے ووٹوں سے کرسیِ اقتدار پر براجمان ہوکر حزبِ اقتدار والےہوجاتے ہیں، تو معاملہ وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ والا ہوتا ہے۔
ہمارے مشاہدے کے مطابق موجودہ حزبِ اختلاف اور سابق حکم رانوں (تحریک انصاف پارٹی) نے کچھ عرصہ بعد عوامی مقبولیت کھو دی اور پونے چار سال بعد اقتدار سے علاحدہ ہوئے جب کہ اس کے برعکس موجودہ حکم رانوں نے ایسی پالیسیاں اپنائیں…… جس کی بدولت عام آدمی کی معاشی حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اپنی مقبولیت چند ماہ تک برقرار نہ رکھ سکی۔ سادہ لوح عوام کا خیال تھا کہ کئی پارٹیوں کے ملغوبے سے بنی ہوئی حکومت کے ’’کرتے دھرتے‘‘ ان کے زخموں پر پھاہا رکھ کر ان کے لیے مسیحا ثابت ہوں گے، لیکن ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے مصداق کمر توڑ مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بدعنوانی کے مارے عوام کی توقعات پر پانی پھر گیا…… بلکہ عوام کو مسلسل مسایل خصوصاً روز افزوں مہنگائی کے ایسے دلدل میں ڈال دیا گیا کہ جس سے نکلنے کی دور دور تک کوئی صورت نظر نہیں آتی…… جب کہ دوسری طرف حکومتی وزرا، پارلیمنٹرینز اور معاونین بار بار عوام سے وعدے کرکے کہتے رہے ہیں کہ چند ماہ بعد مہنگائی کم ہوکر حالات ٹھیک ہوں گے…… حالاں کہ اس طرح کے وعدے پچھلی حکومت کے وزرا بھی کررہے تھے، لیکن پشتو کے ایک شعر کے مصداق عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ
ستا پہ وعدہ مے اعتبار نشتہ
زکہ ھیس خوند د انتظار نشتہ
موجودہ حکومت نے برسرِ اقتدار آنے کے ایک ماہ بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے مہنگائی کے مارے ہوئے عوام پر مہنگائی کا بم گرادیا جب کہ آئی ایم ایف کے ڈکٹیشن کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر پندرہ روز بعد اضافہ ہوتا رہا۔ اس کے علاوہ بجلی کی قیمت میں ہفتہ وار اضافہ ہورہا ہے۔ حکم ران کی منطق ہے کہ یہ سب آئی ایم ایف کی شرایط کے مطابق کیا جارہا ہے…… اور اگر ان شرایط پر عمل کرنے سے انکار کیا گیا، تو پاکستان ’’ڈیفالٹ‘‘ کرے گا۔
اپنی حد تک تو حکم رانوں کی سوچ درست ہوسکتی ہے…… لیکن مسلسل اور کمر توڑ مہنگائی کے گرداب میں پھنسے ہوئے عوام کو بھی کوئی راہ تو دکھاؤ کہ وہ کیا کریں؟ کیوں کہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اور بھاری اضافے سے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ جاری ہے…… جس کی وجہ سے متوسط اور محنت کش طبقہ کا دو وقت کی روٹی کمانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مزدوری اور اُجرتیں وہی ہیں…… لیکن اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
ہمارے خیال میں تو درحقیقت اس ملک کا غریب، سفید پوش اور محنت کش طبقہ ہی ’’ڈیفالٹ‘‘ کرگیا ہے۔
بار بار اور نت نئے ٹیکس کا نفاذ عوام اور صنعتوں پر بوجھ ہوتا ہے اور بعض اوقات ٹیکسوں کے نفاذ سے صنعتیں بند ہوتی ہیں اور سرمایہ کاری بھی ان ٹیکسوں کی زد میں آکر رُک جاتی ہے۔
حالیہ ایک اور اعلان کے مطابق حکومت نے صنعتوں پر دس فی صد سپر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ ٹیکس سرمایہ کار اور صنعت کار صارف کی جیب سے وصول کریں گے۔ بصورتِ دیگر کارکنوں کی چھانٹی کریں گے…… جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔
غور کا مقام ہے کہ ایسا تو نہیں کہ آئی ایم ایف کے ذریعے قرضوں کی واپسی کے ڈیمانڈ کی آڑ میں عالمی طاقتیں پاکستان کے بارے میں مخصوص اہداف کے حصول کے لیے حالات پیدا کررہی ہوں۔ لہٰذا حالات کا تقاضا ہے کہ جب تک ہم اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کفایت شعاری اور خود انحصاری اختیار نہیں کریں گے، آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہوں گے اور مہنگائی، بے روزگاری اور قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ خدانخواستہ آخر میں اپنی خود مختاری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
بقولِ غالبؔ
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے