صنعتِ نسبت

’’صنعتِ نسبت‘‘ کو صاحبِ بحرالفصاحت ’’مولوی نجم الغنی (رام پوری)‘‘ نے صنائع معنوی کے ذیل میں درج کیا ہے۔
مولوی نجم الغنی (رام پوری) ’’بحر الفصاحت‘‘ کی جلد ششم و ہفتم (مرتبہ ’’سید قدرت نقوی‘‘، مطبوعہ ’’مجلسِ ترقیِ اُردو ادب لاہور‘‘، طبعِ سوم، اکتوبر 2017ء) کے صفحہ نمبر 317 پر رقم کرتے ہیں: ’’یعنی درمیان دو چیزوں مخالف کے مناسبت بیان کرنا۔ جیسے کوئی پوچھے کہ کنویں اور آتش بازی میں کیا نسبت ہے؟ جواب دینا چاہیے کہ چرخی۔ یعنی یہ ایک چیز ایسی ہے کہ کنویں میں بھی ہوتی ہے اور آتش بازی میں بھی۔ ایسے ہی اگر پوچھے کہ بندوق اور مہاجن اور فرنگی میں کیا نسبت ہے؟ تو جواب میں کہنا چاہیے کہ کوٹھی، اس لیے کہ کوٹھی بندوق میں بھی ہوتی ہے اور کوٹھی مہاجنوں کی بھی کہلاتی ہے اور کوٹھی صاحب لوگ بھی بنواتے ہیں۔ مثال نظم کی یہ مستزاد انشاؔ کے:
مستزاد:
نوبت کو ترے نام سے ہے میل یہ کیسا؟
مت کر تو اچنبھا، کہہ دے، اری باجی
اس شعر میں ایک نسبت ’’نوبت‘‘ اور باجی کی ہے (یعنی نوبت بجتی ہے) جب کہ دوسری نسبت نام کی ہے یعنی ’’باجی۔‘‘
اب ذیل میں دیے جانے والے دو شعر ملاحظہ ہوں،جو انشاؔ کی اسی مستزاد کا حصہ ہیں:
کوکا جی بھلا یہ کہو تھی کون سی نسبت
کس واسطے کل کیوں، آنکھوں پہ تمھاری
جو لوٹ گیا دیکھ کے کل پُتلیوں والا
کرنے میں تماشا، اس میں بھی ہے پُتلی
ان اشعار میں تماشے اور پُتلی کی نسبت کے علاوہ ایک اور نسبت آنکھ اور پُتلی کی بھی ہے۔
صاحبِ بحرالفصاحت نے اس کے علاوہ بھی کئی شعر درج کیے ہیں، جنہیں سمجھنے کے لیے تھوڑے سے غور کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہاں محولہ بالا دو مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
یار زندہ صحبت باقی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے