پاپولر کلچر میں مردوں کی سوشیوسیکشول (Socio-sexual) درجہ بندی (Hierarchy) میں ایلفا میل (Alpha Male) اور بِیٹا میل (Beta Male) کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے۔ ایلفا میل مردوں میں نمایاں، کامیاب اور بااثر مانے جاتے ہیں…… اور بِیٹا کو ان کی نسبت کم بااثر اور عام تصور کیا جاتا ہے…… اور شاید مزید اقسام بھی موجود ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ان سب میں کتنی سچائی ہے…… لیکن مردوں کی درجہ بندی میں ایک قسم ایسی ہے جو اس درجہ بندی والے تکون (Triangle) سے باہر رہنا پسند کرتی ہے اور بہت دلچسپ بھی ہے۔ انہیں سگما میل (Sigma Male) کہتے ہیں۔ سگما میل کون ہوتے ہیں اور کون سی خصوصیات انہیں اس درجہ بندی والے گیم سے باہر رکھتی ہیں؟
٭ کہا جاتا ہے کہ سگما میل کے لیے درجہ بندی والے تکون میں کوئی جگہ موجود نہیں۔ کیوں کہ یہ درجہ بندی میں رہنے کی بجائے اسے اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کسی کی حکم رانی (Authority) کو پسند نہیں کرتے۔ یہ منحرف (Non-conformist) ہوتے ہیں، لیکن تب جب ان کے پاس کوئی وجہ ہو۔ یہ توجہ حاصل کرنے کے لیے منحرف نہیں ہوتے بلکہ اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اکثریت سے بغاوت کرتے ہیں…… لیکن جہاں انہیں محسوس ہو کہ اکثریت کے ساتھ چلنے میں فایدہ ہے، تو یہ بنا اکثریت کا حصہ بنے (یعنی ذہنی حدود "Mental Boundaries” کھینچ کر گروپ کو اپنے اوپر اثرانداز نہ ہونے دینا) اپنے گولز کو حاصل کرنے کے لیے گروپ کا استعمال کرتے ہیں۔ وقت گزارنے کے لیے یہ ان جگہوں کا انتخاب کرتے ہیں جو زیادہ مقبول نہ ہوں اور جس کی اشتہار بازی کے گن ہر جگہ نہ گائے جاتے ہوں…… لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مردوں کی یہ قسم سوشل نہیں ہوتی۔ انہیں بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ گروپ میں کس طرح سے چلنا ہے…… لیکن یہ گروپ کا رنگ خود پر چڑھنے نہیں دیتے۔ کبھی کبھار گروپ کے ساتھ چلنے کو یہ دنیا میں رہنے کی چھوٹی سی قیمت ادا کرنا سمجھتے ہیں اور ان کی یہی بات انکو ایلفا میل سے مختلف بناتی ہے۔ یہی ان کی مختلف شخصیت کا راز ہے۔
٭ سگما میل ہمارے اسٹینڈرڈ ایلفا میل کی طرح ہر وقت لوگوں سے گھرا ہوا رہنا پسند نہیں کرتے۔ یہ جانتے ہیں کہ سماجی روابط کیسے بنانے ہیں اور یہ اس میں ماہر بھی ہوتے ہیں…… لیکن یہ اچھا خاصا وقت خلوت (Solitude) میں بھی گزارتے ہیں۔ یہ ایموشنلی طور پر خود مختار (Independent) ہوتے ہیں، تبھی یہ خلوت کو سیلف-رفلیکشن (Self-reflection)، بزنس پروجیکٹز، کریٹوٹی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اپنی ایگو (Ego) اور اپنے ایموشنز کو اعتدال (Regulate) میں کرنے کے لیے خواتین کے جھرمٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ جذباتی طور پر طاقت ور ہوتے ہیں اور انہیں اپنی آزادی بہت عزیز ہوتی ہے۔ ان کی یہی خودمختاری انہیں خواتین کے لیے مزید پُرکشش بناتی ہے۔ روتے دھوتے یا جذباتی طور پر دوسروں پر انحصار کرنے والے، خواہ خواتین ہوں یا مرد، اپنی کشش کھو دیتے ہیں۔
٭ سگما جہاں گروپ کے ساتھ چلنا جانتے ہیں، وہاں ضرورت پڑنے پر اپنے پُرآسایش خول سے نکل کر اکیلے چیلنجز اور دنیا کا سامنا کرنا بھی جانتے ہیں۔ سفر کے شوقین مرد حضرات جو سگما میل ہوں، وہ زیادہ تر اکیلے سفر کرتے ہیں۔ وہ ان مقامات کا چناو کرتے ہیں جو مشکل اورلوگوں کی توجہ کا مرکز نہ ہوں، جن پر شہرت کی دھول نہ جمی ہو۔
٭ سگما گرگٹ کی مانند ہوتے ہیں۔ یہ خواہ کسی بڑے عہدے پر ہوں یا کسی عام سی کمپنی کے ملازم، یہ ماحول اور حالات دیکھ اپنا رنگ بدل لیتے ہیں۔ درجہ بندی میں موجود ہر قسم کے مرد حضرات کے ساتھ پُرامن ہوکر چلتے ہیں۔ چوں کہ ان کے پاس یہ فن موجود ہوتا ہے کہ کیسے ہر درجہ بندی میں گروپ کا رنگ چڑھائے بغیر گروپ کو فالو کرنا ہے، تبھی یہ ایلفا کے ساتھ اس کی زبان اور بِیٹا کے ساتھ اس کے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں (اور ذہنی اعتبار سے ان پر حاوی رہتے ہیں)، کیوں کہ انہیں مختلف دِکھ کر خواہ مخواہ کی توجہ اپنی جانب مرکوز کروانا پسند نہیں اور چوں کہ فطرت میں صرف تبدیلی مستقل ہے، اس لیے یہ اس اصول(Change is the only constant) پر عمل کرتے ہوئے گرگٹ بننے سے نہیں کتراتے۔ آپ بھی سوچیں گے کہ کیا ہی منافق انسان ہے سگما…… لیکن یہ منافقت نہیں بلکہ بدلتے حالات اور بدلتی دنیا کے ساتھ بدلنا ہے۔
بروس لی (Bruce Lee) کہتا تھا: ’’پانی کی مانند بنو (Be like water)‘‘ اور سگما بھی اسی اصول کی پاس داری کرتے ہیں۔
٭ ان کی سب سے بہترین عادت یہ ہے کہ اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے، تو خاموش رہنا پسند کرتے ہیں۔ بہت سے مرد حضرات کسی معاملے پر ٹھوس اور حقیقی معلومات نہ ہونے کے باوجود ذہین فطین دِکھنے کے لیے خرافات کا سہارا لیتے ہیں۔ کیوں کہ اس بات ’’مجھے نہیں معلوم‘‘ سے ان کی کم زور انا کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ ایسا کرنے سے وہ انتہائی کم زور اور بے وقوف نظر آتے ہیں۔ ’’مجھے معلوم نہیں‘‘ کہنے سے تکلیف ہے، تو خاموشی بہترین جواب ہے۔ اسٹائک فلاسفر ’’مارکس اوریلس‘‘ کہتا ہے کہ آپ ہمیشہ کوئی رائے (Opinion) نہ رکھنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس لیے ضروری نہیں کہ ہر بات کا آپ کو علم اور ہر معاملے پر آپ کی رائے ہو۔ سگما اپنی انرجی بچاتے ہیں خاموش رہ کر۔
٭ سگما کی سب سے اہم اور بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ زندگی نامی کھیل سے اٹیچ (Attach) نہیں ہوتے۔ جس طرح ہم بچپن میں کھیل کھیلتے ہوئے کھیل کے کرداروں میں کھو جاتے تھے، اسی طرح بڑے ہوکر ہم معاشرے کے سونپے ہوئے کرداروں کو نبھانے میں گم ہوجاتے ہیں۔ اکثر ہم ان کرداروں اور اس سے منسلک کھیل سے اتنے اٹیچ ہوجاتے ہیں کہ اگر کوئی اونچ نیچ آئے، تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سب تباہ ہوگیا ہے۔ کوئی ریجیکٹ کردے، بزنس میں اونچ نیچ آجائے، ہم سفر چھوڑ جائے، نوکری چلی جائے، تو نہ صرف مایوسی اور غم سے نڈھال ہوتے ہیں…… بلکہ اکثر لوگ تو خودکشی تک کرنے کا سوچ لیتے ہیں۔ کسی بڑے عہدے والے سے اس کی پوزیشن چلی جائے، تو اسے یوں لگتا ہے جیسے زندگی ختم ہوگئی اور وہ یہ کھیل ہار گیا۔ ایسے میں سگما چوں کہ درجہ بندی سے باہر ہوتے ہیں، تبھی زندگی کے کرداروں سے جڑے ان لوگوں کو روتا دیکھ ہنستے ہیں۔ وہ ان لوگوں کی تکلیف کا تمسخر نہیں اڑاتے…… بلکہ وہ اس بات پر ہنستے ہیں کہ یہ سب زندگی کے کھیل اور اس میں ادا کیے جانے والے کرداروں سے کتنا اٹیچ ہیں۔
سگما بھی سارے کردار ادا کرتے ہیں، لیکن سدھارت گوتم کے لوگوں، چیزوں اور احساسات سے اٹیچ نہ ہونے والے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے زندگی کے کھیل کو بھر پور انداز میں کھیلتے ہیں۔ اگر کوئی کردار کھیل کے دوران میں ختم ہوجائے، تو وہ ضرورت سے زیادہ رنج نہیں اٹھاتے۔ کیوں کہ وہ اپنے ان کرداروں سے کبھی اٹیچ نہیں ہوتے ۔
یہ یقیناً کاذب سائنس (Pseudoscience) ہے لیکن اسے مثالی نمونہ (Archetype) سمجھ کر ایک مناسب اور تخلیقی شخصیت تشکیل دی جاسکتی ہے۔
سگما میل ہمارے ارد گرد ہوسکتے ہیں۔ تاریخ میں بھی کئی ایسے مرد گزرے ہیں…… جنہیں ہم یہ لقب دے سکتے ہیں۔
سگما سے مشابہت رکھتے اس وقت ذہن میں تین ہی نام آرہے ہیں: فلم فائٹ کلب کا کردار ٹائیلر ڈرڈن، فلم جان وِک کا مرکزی کردار اور فلسفی روحانی استاد سدھارت گوتم (بدھا)۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔