اپنا اسداللہ داوڑ جانتا تھا کہ شمالی وزیرستان میں امن، تعلیم، ترقی اور خوشحالی کی بات کرنا اپنے سرکا سودا کرنا ہے…… لیکن وہ باز نہ آیا۔ وہ ظلمتوں کے بیوپاریوں اور ان کے رکھوالوں کے دیس میں تعلیم، امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے جد و جہد کرتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ خوب صورت و خوب سیرت نوجوان ’’یوتھ آف وزیرستان‘‘ کا رہنما، الخدمت کا صدر، تعلیمی رضاکار، عوامی خدمت گار، سماجی کارکن اور اعلا تعلیم یافتہ انجنینئر نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوگیا۔
یہ آخری کہانی ہے اور نہ پہلا واقعہ…… بلکہ میرے دیس میں تو یہ روز کا معمول ہے۔ البتہ ہم ان سانحوں سے ’’یوز ٹو‘‘ ہوگئے ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ ’’ایڈجسٹ‘‘ ہونا شروع کردیا ہے۔ بس صرف اتنا ہو کہ شہید ہونے والے کو ہم جانتے نہ ہوں اور یا ہمارا قریبی رشتہ دار نہ ہو، تو دو تین دن کے سوشل میڈیائی لفاظی کے بعد ہر سانحہ ’’ داخلِ دفتر ‘‘ ہوجاتا ہے اور پھر کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ کیا ہوا تھا اور کیوں ہوا تھا؟
اسداللہ داوڑ سے ملاقات 29 جون 2021ء کو ان کے تعلیمی ادارے ’’صباؤن پبلک سکول بڑو خیل، شمالی وزیرستان‘‘ میں ہوئی تھی۔ یہ تعلیمی ادارہ، اسد نے فاٹا ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے صباؤن سکول سکیم کے تحت مارچ 2020ء میں کھولا تھا۔ جون 2021ء کو اس ادارے میں ڈیڑھ سوسے زاید بچے مفت پڑھ رہے تھے۔ فاؤنڈیشن سے کیے گئے معاہدے کے تحت سو کے لگ بھگ بچوں کی ماہانہ فیس فاؤنڈیشن نے دینی تھی…… جب کہ باقی بچوں کو اسد نے مفت یا معمولی فیس لے کر پڑھانا تھا۔
جون 2021ء تک اسد کو فاؤنڈیشن سے کسی قسم کی کوئی مالی معاونت نہیں ملی تھی۔ ہمارے وزٹ کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ اس سکول کی مانیٹرنگ کی جائے اور معیار پر پورا اترنے کے بعد بقایہ جات کی ادائی کو یقینی بنایا جائے۔ یاد رہے کہ یہ سکول ایسے علاقے میں بنایا گیا ہے کہ جس کے اردگرد کئی کلومیٹر تک کوئی سرکاری سکول نہیں۔
ہم نے سکول کا وزٹ کیا۔ داخل خارج رجسٹر اُٹھایا۔ ایک ایک بچے کی تصدیق کی۔ بچوں کی تعلیمی کارکردگی کا جایزہ لیا۔ مختلف سہولیات کا بغور معاینہ کیا اور انتہائی مطمئن انداز میں سکول کے بچوں اور اساتذہ کے ساتھ گروپ فوٹو کھینچی اور واپسی کی راہ لی۔
راستے میں اسد کے بے حد اصرار پر ایک ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا۔ اسد نے کھانے کے لیے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب تو وزٹ ہوچکا ہے اور آپ لوگوں نے تحریری طور پر سب چیزوں کی تصدیق کردی ہے، تو اب کھانے سے انکار کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ یہ ہماری قبایلی روایات اور مہمان نوازی کے خلاف ہوگا کہ آپ لوگ یہاں سے کھائے بغیر چلے جائیں۔‘‘
بہرحال ہم نے ان کے ساتھ کھانا کھایا اور گپ شپ لگائی۔ اسد کم گو اور خاموش طبع انسان تھا…… لیکن ’’کب، کیا بولنا ہے اور کیسے بولنا ہے!‘‘ کا ہنر بھی جانتا تھا اور اس کے لیے درکار مہارت اور غیرت بھی رکھتا تھا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں جنگ زدہ شمالی وزیرستان میں ایک اعلا تعلیم یافتہ نوجوان کا ایک تعلیمی ادارہ بنانے اور سال سے زاید عرصے تک اسے اپنی جیب سے چلانے پر اسد سے بے انتہا متاثر ہوا۔ مَیں نے اسد کو پشاور آنے کی دعوت دی اور ان کو مسایل حل کرنے کی بھرپور یقین دہانی کروائی۔ اللہ نے کرم کیا اور دوستوں کی محنت رنگ لائی اور یوں اسد کو بقایہ جات کی مد میں تھوڑی سی رقم وزٹ کے اگلے ماہ میں ادا ہوگئی۔
وعدے کے مطابق، اسد نے ہمارے دفتر کا وزٹ بھی کیا اور ہم نے انہیں اپنی طرف سے ’’ٹیچنگ لرننگ میٹریل‘‘ کا ایک سیٹ اور کچھ کتابیں تحفے میں دیں۔ انہیں یقین دہانی کرائی کہ انہیں جب بھی کوئی مسئلہ ہو، تو وہ بلاجھجھک ہم سے رابطہ کرسکتا ہے۔ ہم میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ یہ خوب صورت نوجوان کچھ مہینوں بعد خون میں نہلادیا جائے گا۔ ہم سب کو تو عزم و استقلال کے پیکر اس متحرک نوجوان سے محبت ہوگئی تھی۔
اسد اللہ داوڑ سے صرف دو ملاقاتیں ہوئی تھیں…… لیکن کاش! یہ بھی نہ ہوئی ہوتیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مَیں یہ بات انتہائی دکھ اور درد کے ساتھ کَہ رہا ہوں کہ کاش! یہ دو ملاقاتیں بھی نہ ہوئی ہوتیں، تو باقی پختون شہیدوں کی طرح یہ ظلم بھی کل پرسوں بھول جاتا۔
ویسے بھی ہم نے تو بحیثیتِ قوم اب گنتی کرنا بھی چھوڑ دیا ہے…… یاد رکھنا تو دور کی بات ہے۔ ہم سب نے توبس ’’سوشل میڈیا‘‘ پر ایک آدھ دن کا واویلا مچانا ہوتا ہے۔ مچا لیا ہے…… لہذا اب تو
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑئیے رات گئی بات گئی
کے مصداق بات ختم۔ البتہ اتنا عرض کروں گا کہ پرانے دور کے اسد اللہ خان غالبؔ نے لڑکپن ہی سے یہ جان لیا تھا کہ آج کے مجنون پر سنگ اٹھانے کا مطلب کل کے مجنون (یعنی اپنا) کا سرپھوڑنا ہے…… جب کہ یہ ریاست بڑھاپے میں بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آج کے اسداللہ داوڑ کی آواز کچلنے کا مطلب اپنے آنے والے کل (مستقبل) کا گلا گھونٹنا ہے۔
بس دکھ اسی بات کا ہے اور کوئی بات نہیں!
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔