سٹاک ہوم سنڈروم اور ہم

27 اگست 1973ء کو سویڈن کے دارالحکومت ’’سٹاک ہوم‘‘ میں چند ڈاکو ایک بینک میں ڈکیتی کی نیت سے گھس گئے۔ پولیس کے فوراً پہنچنے پر ڈاکوؤں نے بینک کے دروازے اندر سے بند کرکے عملے کے 6 افراد کو یرغمال بنا لیا۔ ڈاکوؤں نے ان لوگوں کے ساتھ خود کو بھی بینک کے اندر بند کرلیا۔ چھے روز بعد جب پولیس نے ڈاکوؤں کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا، تو اُس وقت ایک ایسی حیرت انگیز بات ہوئی جس کی وجہ سے میڈیکل سائنس میں ایک نئی بیماری کی دریافت ہوئی…… جو اس سے پہلے کسی کو معلوم نہ تھی۔
ہوا یوں کہ بینک کے اندر یرغمال بنائے گئے افراد نے ڈاکوؤں کے خلاف نہ صرف گواہی دینے سے انکار کردیا…… بلکہ ڈاکوؤں کے عدالتی دفاع کے لیے چندہ جمع کرنا شروع کردیا۔ ان میں سے ایک خاتون نے تو جیل میں بند ایک ڈاکو سے منگنی بھی کرلی۔
یہ بہت عجیب بات تھی کہ جن ڈاکوؤں نے اُن کو یرغمال بنایا تھا، وہ لوگ اُن سے ہم دردی جتانے لگے۔ اس رویے نے ماہرینِ نفسیات کو چکرا کے رکھ دیا۔ اس پر تحقیق شروع ہوئی…… اور پھر انہوں نے اس نفسیاتی رویے کو ’’سٹاک ہوم سنڈروم‘‘ کی اصطلاح عطا کی۔
ماہرینِ نفسیات نے اس سوال کا جواب تلاش کرنا شروع کردیا کہ وہ کون سے حالات اور نفسیاتی عوامل ہوتے ہیں جب زیادتی کا شکار زیادتی کرنے والے کا ہم نوا بن جاتا ہے؟
تحقیق سے پتا چلا کہ ’’سٹاک ہوم سنڈروم‘‘ کے شکار لوگ جب خود کو اِغوا کاروں سے آزاد کرانے کی امید کھو بیٹھے…… اور ان کو فرار یا اس قید سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آیا، تو ان کا جسمانی اور ذہنی اذیت سے بچانے والا دفاعی نظام لاشعوری طور پر اِغوا کاروں کا حامی ہوگیا۔ یوں زیادتی کا شکار زیادتی کرنے والے کے وکیل بن کے کھڑے ہوئے۔
مطلب یہ کہ کچھ لوگ لاشعوری طور پر ان لوگوں سے ہم دردی کرنے لگتے ہیں جو لوگ ان پر ظلم اور زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت میں ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کو ’’سٹاک ہوم سینڈروم‘‘ (Stockholm Syndrome) کا نام دیا گیا۔ جب لوگوں کو یقین ہوجاتا ہے کہ ان کے لیے ان حالات سے فرار ناممکن ہے، تو لاشعوری طور پر دماغ اس ظلم اور زیادتی کو نہ صرف قبول کرتا ہے…… بلکہ اس کا حامی بن جاتا ہے۔
اس بیماری کے متعلق بہت سے تاریخی واقعات ہیں جن میں امریکہ کی ’’پیٹی ہرسٹ‘‘ بہت مشہور ہوئی۔ پیٹی ہرسٹ کو 1974ء میں لاس اینجلس میں ’’سائمبائیونیز لبریشن آرمی‘‘ نامی ایک دہشت گرد گروپ نے اِغوا کر لیا تھا۔ اس وقت اس کی عمر 18 سال تھی۔ اس پر بدترین جسمانی تشدد کیا گیا۔ گروپ کے ارکان نے اس کا اجتماعی ریپ کیا…… لیکن وہ اس گروپ کی محبت میں گرفتار ہوکر ان کی رکن بن گئی۔ کئی مسلح ڈکیتیوں میں حصہ لیا اور لوگوں پر گولیاں چلائیں۔ آخر میں گرفتار ہوکر جیل پہنچ گئی۔
اس بیماری کے تناظر میں کچھ یہی حال ہمارے پورے معاشرے کا ہے…… جن لوگوں نے پچھلے 70 سالوں سے ہمارے ذہنوں اور وسایل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ہم ان کی محبت میں گرفتار ہیں۔ ان کی بات پر ’’لبیک‘‘ کہتے ہیں۔ انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے قبایلی علاقوں میں ٹی ٹی پی نے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو قتل کیا۔ ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا۔ ان کے گھروں کا سامان نیلام کرکے پیچ دیا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 80,000 سرکاری فورسز اور عام لوگ دہشت گردوں کا نشانہ بنے۔ لاکھوں لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ غرض ہر طرح کا جانی و مالی نقصان برداشت کیا…… لیکن آج بھی طالبان کے لیے نہ صرف عوام میں بلکہ سیاسی جماعتوں اور اداروں کے اندر بھی نہ صرف ہم دردی کے جذبات پائے جاتے ہیں…… بلکہ ان کو حق بجانب بھی قرار دیا جاتا ہے۔
ملک کے اندر جتنی بھی پارٹیاں مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں…… وہ سب طالبان کے لیے نہ صرف نرم گوشہ رکھتی ہیں…… بلکہ ان کی ہر طرح سے مالی مدد بھی کرتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان پر دو دفعہ خود کُش حملے ہونے کے باوجود طالبان کے لیے ان کا نرم گوشہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
مسلم لیگ ن بھی ان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اور ہمیشہ سے ان کے ساتھ بات چیت کی حامی رہی ہے۔ مسلم لیگ کے سابقہ دورِ حکومت میں تو باقاعدہ کمیٹیاں بنا کر ان سے مذاکرات کیے گئے۔ اسامہ بن لادن کے امریکہ کے ہاتھوں مرنے کے بعد قومی اسمبلی میں چودھری نثار کی تقریر ریکارڈ پر ہے۔
اس وقت ملک میں سب سے زیادہ قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتنے والی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو تو ’’طالبان خان‘‘ کا لقب بھی مل چکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پہلی دفعہ حکومت بنانے کے بعد اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے مدرسے کے لیے بجٹ میں کروڑوں روپیہ کا فنڈ مختص کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس نے پشاور میں طالبان کو دفتر کھولنے کی بھی پیشکش کی۔ سابقہ فاٹا میں طالبان کے خلاف جاری فوجی آپریشن کو ختم کرنے اور وہاں سے فوج نکالنے کے لیے باقاعدہ جلسے جلوس بھی کیے اور ہر فورم پر اس کی مذمت بھی کی۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اس رویے سے تو اصولاً یہ چاہیے تھا کہ ان جماعتوں کے ووٹ بینک پر اثر پڑتا…… مگر ’’سٹاک ہوم سینڈروم‘‘ کے مارے ہوئے عوام نے ان جماعتوں کو الیکشن میں ووٹ دیے جنہوں نے طالبان کی حمایت کی۔
اس کے علاوہ جو بھی حکومت آتی ہے، اس کے سارے اقدامات عوام کی بجائے اشرافیہ کی بھلائی کے لیے ہوتے ہیں۔ روز نئے نئے ٹیکس اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی، لیکن مجال ہے کہ کوئی احتجاج ہو۔
تازہ مثال نئی حکومت کی ہے جو ہمیشہ سابقہ حکومت پر مہنگائی کی وجہ سے تنقید کرتی۔ خود حکومت میں آنے کے بعد پٹرول کی قیمتوں میں تادمِ تحریر 60 روپیہ اضافہ کرچکی ہے۔ یہی حال بجلی اور گیس کا بھی ہے۔ آٹے، خوردنی تیل اور دیگر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ اشرافیہ کو دیے گئے مراعات میں کوئی کمی نہیں ہورہی…… بلکہ غریب عوام پر سارا بوجھ ڈالا جا رہا ہے…… مگر عوام پھر بھی خوش ہیں۔ ’’زندہ باد‘‘ کے نعروں سے سیاسی رہنماؤں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں سٹاک ہوم سینڈروم کے سب سے زیادہ متاثرین پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں چونکہ حکومتیں خود اس بیماری کا شکار ہیں تو ان سے تو کچھ ہوگا نہیں۔ البتہ اگر بین الاقوامی برادری کچھ توجہ کرکے ان 2 2کروڑ بیماروں کہ علاج کیلئے کچھ مدد کریں تو شائید کچھ حل نکل آئے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے