اُردو شاعری کا جنازہ نکالنے والا سوشل میڈیا

سوشل میڈیا پر ایک عجیب پوسٹ نظر سے گزری جس میں ایک شعر اسد اللہ خاں غالبؔ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ سرِ دست شعر ملاحظہ ہو:
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا جہاں خدا نہیں
شعر پڑھتے ہی بوجوہ اٹک سا گیا۔ اٹکنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ جتنا مَیں نے غالبؔ کو پڑھا ہے، یہ سرے سے غالبؔ کا اُسلوب ہے ہی نہیں۔ دوسری وجہ اٹکنے کی یہ تھی کہ مذکورہ شعر کا مصرعۂ ثانی بے وزن ہے۔ شعر کو گوگل (Google) میں سرچ کیا، تو ایک تصویر ہاتھ لگی، جسے پڑھتے ہی ہنسی چھوٹی۔ غالبؔ سے منسوب اس شعر کے جواب میں علامہ محمد اقبال، احمد فراز اور مبشر بشی نامی ایک شاعر سے منسوب تین پھسپھسے اشعار پڑھنے کو ملے، جس سے منھ کا ذایقہ مزید خراب ہوا۔ لگے ہاتھ تصویر بنانے والے ظالم پر تین حرف بھیجے۔
قارئین، اب ذرا علامہ محمد اقبالؔ کی طرف سے جواب تو ملاحظہ فرمائیں (اکیلے میرے منھ کا ذایقہ ہی کیوں خراب ہو):
مسجد خدا کا گھر ہے پینے کی جگہ نہیں
کافر کے دل میں جا، وہاں پر خدا نہیں
اب اگر اس موقع پر غالبؔ حیات ہوتے، تو علامہ کی طرف داری میں اپنے اس شہرہ آفاق مصرعے کا سہارا لیتے کہ
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا!
اب لگے ہاتھوں وہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں، جسے احمد فرازؔ جیسے ثقہ شاعر کے سر تھوپا گیا ہے:
کافر کے دل سے آیا ہوں، مَیں یہ دیکھ کر
خدا موجود ہے وہاں پر، اُسے پتا نہیں
شکر ہے کہ احمد فرازؔحیات نہیں، ورنہ یہ ظلمِ عظیم کرنے والا حیات نہ رہتا۔ کہاں رومان کی علامت اور مزاحمت کا استعارہ ’’احمد فرازؔ‘‘ اور کہاں یہ پھسپھسا شعر……!
اب آخر میں مبشر بشی سے منسوب شعر بھی ملاحظہ ہو، تاکہ کوئی کسر باقی نہ رہے:
کم بخت کافر کو پتا تو ہے خدا کی ذات کا
پر وہ دل کی نگاہ سے خدا کو دیکھتا نہیں
مبشر بشی سے منسوب شعر سے وہ اشعار بدرجہا بہتر ہیں، جو ہمارے مینگورہ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والی گاڑیوں پر آگے پیچھے لکھے ہوئے پڑھنے کو ملتے ہیں۔

گوگل سرچ کے نتیجے میں ہاتھ آنے والی مذکورہ تصویر کو پڑھ کر مجھے کُرید ہوئی کہ کیوں نہ اس بارے میں تھوڑی سی تحقیق کی جائے۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد اُردو شاعری کے حوالے سے مستند ویب سائٹ "www.rekhta.org” پر ایک حوالہ ہاتھ آیا ۔ لنک کھول کے دیکھا، تو شعر یوں درج ملا:
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
مصرعۂ ثانی کا وزن برابر تو ہوا، مگر ایک اور مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا کہ وہاں شاعر کے نام کی جگہ ’’نامعلوم‘‘ درج تھا۔ ہم بھی تو نچلا نہ بیٹھنے والوں میں سے ہیں۔ اپنی ذاتی لائبریری کا دروازہ کھولا اور اس حوالے سے کئی کتب کی ورق گردانی کی۔ تلاشِ بسیارکے بعد محمد شمس الحق کی تالیف ’’اُردو کے ضرب المثل اشعار تحقیق کی روشنی میں‘‘ (ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن2020ء، ناشر ’’فکشن ہاؤس لاہور‘‘) کے صفحہ نمبر 246 پر شعرکچھ اس انداز میں ہاتھ آیا
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا کہ جہاں پر خدا نہ ہو
شعر کے ساتھ ذکر شدہ صفحہ پر محمد شمس الحق نے یہ صراحت بھی فرمائی ہے: ’’بعض اصحاب نے اِس شعر کو داغؔ سے منسوب کیا ہے۔ داغؔ کے چاروں شعری مجموعوں میں سے کسی میں یہ شعر درج نہیں۔‘‘
واضح رہے کہ داغؔ سے محمد شمس الحق کی مراد داغؔ دہلوی نہیں بلکہ نواب میرزا خاں داغؔ ہے۔ شعرِمذکور کتاب کے 139 ویں صفحہ پر نواب میرزا خاں داغؔ کے نام کے ساتھ ایک بڑے سوالیہ نشان (؟) کے ساتھ موجود ہے۔ انہوں نے صفحہ 138 پر جلی حروف میں یہ صراحت بھی درج کی ہے: ’’ذیل میں ایسے ضرب المثل اشعار درج کیے جا رہے ہیں جو کسی ایک یا ایک سے زیادہ شعرا کے نام سے منسوب ہیں، لیکن متعلقہ شعرا کے شعری مجموعوں میں درج نہیں۔‘‘
حاصلِ نشست:۔ یہ شعر میرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا ہے نہ نواب میرزا خاں داغؔ کا…… بلکہ کسی نامعلوم شاعر کا ہے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے