آج سے کوئی ڈھائی ہزار سال قبل ہندوستان کا ایک مشہور بادشاہ گزرا ہے جس کو تاریخ ’’چندر گپت موریا‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ انڈیا کا مشہور فاتح ’’اشوکا‘‘ اسی کا پوتا تھا۔ یہ شاید ہندوستانی تاریخ کا واحد حکم ران تھا جس نے مسلمانوں کی آمد سے پہلے پورے ہندوستان پر حکومت کی۔
چندر گپت موریا کی اس کامیابی کی وجہ صرف اس کی بہادری نہیں تھی…… بلکہ اس کا ایک بے مثال وزیر بھی تھا…… جو ذہانت اور مکاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ اُس شخص کو تاریخ ’’چانکیہ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔
چانکیہ کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ 375 قبلِ مسیح میں ٹیکسلا میں پیدا ہونے والے ’’چانکیہ کوٹلیہ‘‘ کا اصل نام ’’وشنو گپت‘‘ تھا۔ وہ سیاست اور معاشیات پر زبردست عبور رکھتا تھا۔ اس کی مشہور تصنیف ’’ارتھ شاستر‘‘ ہے…… جس کا مطلب ’’پولی ٹیکل سائنس‘‘ ہے۔ اس کتاب کے 150 ابواب ہیں…… جس میں سیاست اور حکم رانی پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے خارجہ پالیسی اور معاشیات پر بھی ماہرانہ رائے دی ہے۔
چانکیہ بہت ہی ذہین آدمی تھا۔ ایک طرف اگر اس کا نام پولی ٹیکل سائنس کے بانیوں افلاطون اور ارسطو کے ساتھ لیا جاتا ہے، تو دوسری طرف اسے ’’آدم سمتھ‘‘ کی کلاسیکی اکانومی سے پہلے کے دور کا عظیم ترین معیشت دان بھی جانا جاتا ہے…… لیکن اس کی کچھ باتیں ایسی تھیں جو اخلاقیات سے تصادم رکھتی تھیں۔ اس کی زندگی میں کچھ واقعات ایسے مشہور ہیں جس سے اس کی شخصیت سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
کہتے ہیں کہ اس کے آگے والے دانت بہت بڑے اور نوکیلے تھے۔ اس کی ماں بھی اس کو دیکھ کر خوف محسوس کرتی۔ چانکیہ نے اپنے دانت نکلوائے جس سے وہ اور بھی بدصورت لگنے لگا۔ اس کے علاوہ وہ کپڑوں پر بھی توجہ نہیں دیتا تھا بلکہ عام قسم کے کپڑے پہنتا۔ جب وہ چندر گپت کا وزیراعظم بنا، تو اس نے محل کے سامنے جھونپڑی بنائی اور اس میں رہنے لگا۔ ایک دفعہ مگدھ کے بادشاہ کے دربار میں گیا، مگر بادشاہ نے اس کی وضع قطع دیکھ کر اس کو محل سے باہر نکالا۔ اس بات سے چانکیہ بہت ناراض ہوا اور دل میں بادشاہ سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ مگدھ موجودہ بھار کے علاقے میں دریائے گنگا کے کنارے واقع تھا۔ اس کا شمار ہندوستان کے 16 بڑی بادشاہتوں میں ہوتاہے۔ چانکیہ نے بادشاہ کے بیٹے کے ساتھ تعلق استوار کیا اور اس کو اس بات پر راضی کیا کہ باپ کو مار کر اس کو خود باشاہ بننا چاہیے۔ وہ چانکیہ کی باتوں سے متاثر ہوا اور بادشاہ کو مار نے کے بعد خود مگدھ کا حکم ران بن گیا۔ اس کے بعد چانکیہ نے مگدھ سے پنجاب کا رُخ کرلیا۔ یہاں چندر گپت موریا کے پاس پہنچا۔ چندر گپت نے اس وقت پنجاب پر تازہ قبضہ کر لیا تھا۔ اس نے چندر گپت کو اس بات پر قایل کیا کہ پنجاب فتح کرنے کے بعد مگدھ کو فتح کرنا ضروری ہے۔ چندر گپت نے فوج اور اسلحہ جمع کرکے مگدھ پر چڑھائی کی اور نئے بادشاہ کو مارکر اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔ ساتھ میں چانکیہ کو اپنا وزیر اعظم نام زد کیا۔ یوں چانکیہ نے اپنی بے عزتی کا بدلہ بھی لیا اور اقتدار میں بھی آگیا۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے لکھا ہے کہ وہ ایک اچھا معیشت دان بھی تھا۔ جلد ہی اس نے ٹیکس اصلاحات نافذ کیں۔ خواتین کو برابری کے حقوق دیے اور ایک مضبوط فوج تیار کی۔
وہ سیاست میں دھوکا دینے اور خون بہانے کا قایل تھا۔ اس کے خیال میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے پہلے چاپلوسی سے اور اگر یوں بات نہ بنے ہو، تو پھر بے رحمی سے کام لیا جاسکتا ہے۔
اُس کے خیال میں دشمن کو دھوکے سے مارنا بہترین حکمت عملی ہے۔ اس کا اُصول تھا کہ دشمن کو مارنے سے پہلے اس کے دوستوں اور قریبی لوگوں کو بدگمانیاں پیدا کرکے اس دور کرو۔ پھر دوست کے روپ میں جا کر اس سے گلے ملو اور خنجر اس کے سینے میں اتاردو۔
اگر معاشرے میں کوئی گروپ راجہ کے خلاف ہو، تو جھوٹے پروپیگنڈے سے ان گروپوں کو پہلے آپس میں لڑاؤ…… اور جب وہ کم زور ہوجائیں، تو پھر بھرپور حملہ کر کے ختم کرو۔ وہ اختلافِ رائے رکھنے والوں کو ختم کرنے کا قایل تھا۔
اس کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ کے ساتھ کہیں جارہا تھا کہ بادشاہ کے کپڑے راستے میں ایک جھاڑی میں الجھ گئے۔ چانکیہ نے شکر منگواکر جھاڑی کے جڑوں میں ڈال دیا…… اور بادشاہ سے کہا کہ اگر یہ جھاڑی آپ کاٹتے تو لوگوں کو برا لگتا۔ اب مَیں نے اس کی جڑوں میں شکر ڈال دیا جس سے چیونٹیاں اسے کھا جائیں گی۔ کچھ دن بعد جب بادشاہ نے مشاہدہ کیا، تو جھاڑی سوکھ چکی تھی، کیوں کہ چیونٹیاں شکر کے ساتھ اس کی جڑوں کو بھی کھا چکی تھیں۔
چانکیہ کا یہ بہت اہم اصول تھا کہ دشمن کو لالچ اور پیار سے مارو اور اس کو آخر دم تک شک نہیں ہونے دو۔
چانکیہ انسانی تاریخ میں وہ واحد آدمی ہے جسے ’’گورو‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اپنی بے پناہ ذہانت اور عزمِ مصمم کی وجہ سے وہ ہر جگہ کامیاب ہوا۔ جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے، تو سیاست میں وہ کسی اخلاقی اصول کو نہیں مانتا تھا۔ وہ اقتدار کی سیاست میں سب کچھ جایز سمجھتا تھا اور اس حوالے سے وہ سفاکیت کا بھی قایل تھا۔ وہ حکومت حاصل کرنے اور پھر اسے کامیابی سے چلانے کے لیے جھوٹ، مکاری اور منافقت کو جایز سمجھتا تھا۔
’’ارتھ شاستر‘‘ کے علاوہ چانکیہ کی اور کتاب ’’چانکیہ نیتی‘‘ ہے۔ چانکیہ نیتی کے 17 باب ہیں۔ یہاں ہم چانکیہ کے کچھ مشہور اقوال کا ذکر کریں گے:
چانکیہ کہتے ہیں کہ دوسروں کی غلطیوں سے سیکھو…… تم اپنی صرف خوبیوں کی بدولت زندہ نہیں رہ سکتے۔
وہ اپنے مخالفین کو زیر کرنا بہت ضروری سمجھتا تھا اور حصولِ اقتدار کے لیے ہر چال اس کی نظر میں جایز تھی۔ اس کا فلسفہ تھا کہ آپ کے اندر حصولِ اقتدار کی ہوس کبھی ٹھنڈی نہ ہونے پائے۔
اس کے مطابق اپنے راز کسی کو نہ بتاؤ، ورنہ تباہ ہو جاؤگے۔ نہ کبھی اپنی غلطیاں تسلیم ہی کرو۔ کوشش کرو کہ اپنی غلطیاں اپنے مخالفین کے سروں پر ڈال دو۔
اس کا خیال تھا کہ اقتدار میں دیانت داری نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ بقول اس کے کسی بھی شخص کو بہت زیادہ دیانت دار نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ سیدھے کھڑے ہوئے درخت پہلے کاٹے جاتے ہیں۔ اسی طرح دیانت دار افراد کو بھی پہلے ناکارہ کیا جاتا ہے۔
چانکیہ کا قول ہے کہ جن لوگوں سے دوستی رکھو، اُن سے دوستی میں ہمیشہ اپنی غرض پیشِ نظر رہے…… اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔
’’چانکیہ نیتی‘‘ میں تین اہم اصول بیان کیے گئے ہیں کہ کبھی کم زور نہ پڑو، کبھی اپنی کم زوری کسی پر ظاہر نہ ہونے دو…… اور کبھی اپنی کم زوری کو معمولی نہ سمجھو۔
چانکیہ کے بقول ہر سانپ جان لیوا نہیں ہوتا…… مگر زہریلا ضرور ہوتاہے۔
جیسے ہی خوف کو اپنے قریب پاؤ…… آگے بڑھ کر اس پر حملہ کرو اور اسے تباہ کر دو۔ ورنہ یہ خوف تمھیں مارڈالے گا۔
چانکیہ کے بقول کسی بے وقوف کے لیے کتابیں اتنی ہی مفید ہوتی ہیں، جتنی کہ کسی اندھے کے لیے آئینہ۔
پڑوسی ممالک کے بارے میں بھی انھوں نے تفصیل سے لکھا ہے…… اور کچھ راہنما اصول متعین کیے ہیں۔
ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک رکھا جائے جو دشمنوں سے رکھا جاتا ہے۔
تمام ہمسایہ سلطنتوں پر ہمیشہ کڑی نگرانی رکھی جائے۔
غیر ہمسایہ سلطنتوں سے دوستانہ تعلقات قایم کیے جائیں۔
جن سے دوستی رکھی جائے، ان سے دوستی میں ہمیشہ اپنی غرض پیشِ نظر رہے…… اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے ۔
پڑوسی ملکوں کے لیے دل میں ہمیشہ رقابت کی آگ مشتعل رکھی جائے…… اور ہر وقت کسی نہ کسی بہانہ سے جنگ کی چنگاریاں سلگاتے رہیں۔
جنگ میں انتہائی تشدد سے کام لیا جائے، حتیٰ کہ خود اپنے شہریوں کے مصایب و آلام کی بھی پروا نہ کی جائے۔
دوسرے ملکوں میں مخالفانہ پروپیگنڈا، تخریبی کارروائیاں، ذہنی انتشار پیدا کرنے کی مہم جاری رکھی جائے ۔
امن کا خیال تک بھی دل میں نہ لایا جائے…… خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کیوں نہ کرے۔
پاکستان اور کچھ دیگر ممالک میں چانکیہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ اس کی بنیادی وجہ اس کا جھوٹ کے سہارے حکومت کرنا، اور جھوٹ کو پھیلانا…… مخالفین کا قتل عام کرنا اور دھوکا دہی سے مخالفین کو مارنا ہے۔
جاتے جاتے نتیجہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ چانکیہ کے بارے میں کیا تاثر لیتے ہیں اور ساتھ میں وطنِ عزیز کی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں چانکیہ کے فرامین کو کس حد تک اہم سمجھتے ہیں؟
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔