عید کے دن رمضان المبارک کے روزوں کے تسلسل کے خاتمے اور حسبِ سابق کھانے پینے کے نظام کے آغاز کی وجہ سے واجب ہونے والی زکات و صدقہ کو ’’زکاۃ الفطر‘‘ یا ’’صدقۃ الفطر‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعض علما کا خیال ہے کہ صدقۂ فطر ’’فِطرۃ‘‘ یعنی فطرت و خلقتِ انسانی‘‘ سے ماخوذ ہے، جو نفسِ انسانی کو پاک بنانے اور نفس کے اعمال کو پاکیزہ بنانے کے لیے مشروع و واجب ہوا ہے۔
٭ صدقۂ فطر کب واجب ہوا؟:۔ جس سال رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے یعنی ہجرتِ مدینہ کے دوسرے سال صدقۂ فطر کا وجوب ہوا ہے۔ صدقۂ فطر کیوں واجب ہوا؟ (زکاۃُ الفطرِ طُہْرَۃٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ، و طُعْمَۃٌ للمساکینِ) سنن ابی داود: 1609
اللہ کے رسولؐ اللہ نے صدقۂ فطر کو فرض (یعنی واجب) قرار دیا اور فرمایا: غریبوں کو اس دن غنی کردو (یعنی ان کے ساتھ مالی معاونت کرو!) صدقۂ فطر کی ادائی صرف حکمِ شرع ہی نہیں؛ بلکہ اس کے جلو میں بے شمار دنیا وآخرت کے فواید مضمر ہیں۔ اکثر انسان سے روزے میں بھول چوک یا کوئی خطا دانستہ یا نادانستہ طور پر سرزد ہوجاتی ہے، جس کی تلافی کا انتظام صدقۂ فطر کردیتا ہے۔ اسی طرح وہ فقرا و مساکین جو نئے جوڑے اور کپڑے تو درکنار، اپنی دن بھر کی خوراک وغیرہ کا بھی انتظام نہیں کرسکتے، ان کے لیے خوراک وغیرہ کا انتظام بھی صدقۂ فطر کے ذریعے ہوجاتا ہے اور وہ بھی کسی درجے میں عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اس کے ذریعے انسان کے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ مشکل آسان ہوتی ہے۔ کامیابی ملتی ہے۔ موت کی سختی دور ہوتی ہے۔ قبر کی منزل آسان ہوجاتی ہے اور عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ گویا صدقۂ فطر کی ادائی سے قبولیتِ روزہ کی راہ میں رکاوٹ سارے امور ختم ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
٭صدقۂ فطرکتنا ہے؟:۔ ایک آدمی کا صدقۂ فطر ایک کلو چھے سو چھتیس گرام (1.63 6kg) گیہوں یا اس کی قیمت ہوتا ہے یا جو، کشمش اور کھجور میں سے تین کلو دو سو بہتّر گرام (3.272Kg) یا اس کی قیمت ہے۔
٭ صدقۂ فطر (فطرانہ) کے حوالے سے چند ضروری مسایل ملاحظہ ہوں:
٭ پہلا مسئلہ:۔ کیا صدقۂ فطر ہر مسلمان پہ واجب ہے یا زکات کی طرح اس کے وجوب کا کوئی مالی نصاب بھی ہے؟تمام آئمہ کے یہاں صدقۂ فطر کے وجوب کے لیے مالی نصاب یا استطاعت ضروری ہے۔ اب یہ استطاعت کتنی ہونی چاہیے؟ اس کی تحدید میں ان کے مابین اختلاف ہوا ہے۔ امام شعبی، عطاء، ابن سیرین، زہری، عبداللہ بن مبارک، امام مالک، امام شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ کے نزدیک اگر کسی کے پاس (عید کے) ایک دن اور رات کی خوراک سے فاضل غلہ موجود ہو، تو یہی استطاعت ہے اور اب اس کے لیے صدقۂ فطر ادا کرنا ضروری ہے…… جب کہ سیدنا الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں بھی استطاعت کی مراد وہی لی ہے جو زکاتِ مالی میں مراد ہے۔ انہوں نے اُس شخص کے لیے صدقۂ فطر ضروری قرار دیا ہے، جس کے پاس زکات نکالنے کا نصاب یعنی ساڑھے 52 تولے چاندی (یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر رقم) موجود ہو۔ البتہ دو معمولی فرق یہ ملحوظ رکھے گئے ہیں کہ زکات کے نصاب میں مالِ نامی یعنی سونا چاندی روپے متعین مقدار میں رکھنے پر زکات فرض ہوتی ہے اور مالی سال پہ سال گزرنے پر ادائی واجب ہوتی ہے…… جب کہ یہاں مالِ نامی ضروری نہیں، بلکہ ساڑھے باون تولے چاندی (نصابِ زکوات) کی مالیات سے زاید گھریلو سامان رکھنے والے مسلمان پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے، اور یہاں سال گزرنا بھی ضروری نہیں۔ عید کی صبح تک اتنی مالیت کا مالک ہوگیا، تو صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے۔ بس ذکر شدہ معمولی جزوی فرق کے سوا زکات اور صدقۂ فطر کے نصاب میں حنفیہ کے یہاں کوئی فرق نہیں۔ زکات کا نصاب ہی صدقۂ فطر کا نصاب ہے۔ غیرصاحبِ نصاب یعنی فقیر پر ہمارے یہاں صدقۂ فطر واجب نہیں (ہاں ادا کردے، تو بہت ثواب ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی آئی ہے)
٭ دوسرامسئلہ:۔ صدقۂ فطر واجب ہونے کے لیے روزہ رکھنا شرط ہے یا نہیں؟ صدقۂ فطر واجب ہونے کے لیے روزہ رکھنا شرط نہیں۔ اگر کسی عذر، سفر،مرض یا بڑھاپے کی وجہ سے یا معاذاللہ بلا عذر روزہ نہ رکھا،تب بھی واجب ہے۔
٭ تیسرا مسئلہ:۔ صدقۂ فطر ایک مسکین کو دیا جائے یا متفرق مساکین کو؟ ایک شخص کا فطرہ ایک مسکین کو دینا بہتر ہے۔ اگر مختلف مساکین کو صدقۂ فطر دیا جائے تو بھی جایز ہے۔
٭ چوتھا مسئلہ:۔ صدقۂ فطر کا مصرف کیا ہے؟ جن لوگوں کو زکات دینا جایز ہے، انہی کو صدقۂ فطر بھی دینا جایز ہے۔
٭ پانچواں مسئلہ:۔ صدقۂ فطر کس کس کی طرف سے دینا واجب ہے؟ صدقۂ فطر اپنی طرف سے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بہ شرط یہ کہ وہ فقیر یعنی صاحبِ نصاب نہ ہو، اور خدمت گار، خادم یا غلام کی طرف سے اگرچہ وہ کافر ہوں، واجب ہے۔ نابالغ اولاد اگر مال دار ہو، تو اس کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہ ہو، تو ان کی طرف سے ادا کرنا والد پر واجب نہیں، ہاں! اگر احساناً ادا کردے، تو جایز ہے۔ عورت پر جب کہ وہ صاحبِ نصاب ہو، تو صدقۂ فطر اس پر خود واجب ہے۔ اگر شوہر ادا کرے گا، تو احسان ہوگا اور ادا ہوجائے گا۔ عورت کا صدقہ اس کے باپ پر واجب نہیں۔ عورت پر کسی اور کی طرف سے صدقہ فطر اداکرنا واجب نہیں۔
٭ چھٹا مسئلہ:۔ عید کے دن صبحِ صادق سے پہلے جس بچے کی ولادت ہو، اس کا بھی صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
٭ ساتواں مسئلہ:۔ فطرہ کا مقدم کرنا مطلقاً جایز ہے جب کہ وہ شخص موجود ہو، جس کی طرف سے ادا کرتا ہو، اگرچہ رمضان سے پیشتر ادا کردے۔ اور بہتر یہ ہے کہ عید سے پہلے یعنی 15 رمضان تک صدقۂ فطر دیا جائے، تاکہ مستحقین اس سے اپنے بچوں کی عید کے لیے خریداری کر سکیں۔
٭ آٹھواں مسئلہـ:۔ ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقۂ فطر بھیجنا؟ ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقۂ فطر بھیجنا مکروہ ہے۔ ہاں، اگر دوسرے شہر میں اس کے غریب رشتہ دار رہتے ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں، یا وہ لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہوں، تو ان کو بھیج دیا، تو مکروہ نہیں۔ کیوں کہ طالب علموں اور دین دار غریب عالموں کو دینا بڑا ثواب ہے۔ صدقہ دینے میں اپنے غریب رشتہ داروں اور دینی علم کے سیکھنے سکھانے والوں کو مقدم رکھنا افضل ہے۔
نواں مسئلہ:۔ غیرملک مقیم شخص کس قیمت سے اپنا صدقہ فطر ادا کرے؟ جو شخص جہاں مقیم ہے، اگر وہ جائے اِقامت چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا چاہے، تو جہاں وہ مقیم ہے وہاں کی قیمت کے لحاظ سے صدقۂ فطر نکالے ، جہاں ادا کررہا ہے وہاں کی اجناس کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا، بلکہ یہ جہاں مقیم ہے اس کے وطن اِقامت کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔
ضلع سوات و مضافات کے لیے گیہوں کے حساب سے 144 روپے، جَو کے حساب سے 325 روپے، کشمش جو متوسط درجہ کا ہو 2,625 روپے، عجوہ کھجور کے حساب سے 6,825 روپے اور عام کھجور جو متوسط درجے کے ہوں 1,440 روپے فی کس صدقۂ فطر ہے۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔