’’جن دنوں پاکستان سپریم کورٹ میں نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں لاہور ہائی کورٹ سے دی جانے والی سزائے موت کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر بحث ہو رہی تھی، ہمارے ایک ’’دوست‘‘ نے جسے یو ایس آئی ایس یعنی’’United States Citizenship and Immigration Services‘‘ کے ٹیلکس روم تک رسائی حاصل تھی، مجھے ’’نہایت ضروری‘‘ کا خصوصی کوڈیڈ پیغام بھجوایا۔ پیغام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے میں فوری طور پر طے شدہ مقام پر پہنچا۔ راولپنڈی کے راجہ بازار میں پرانے کپڑے فروخت کرنے والوں کی ایک’’فٹ پاتھ برانڈ‘‘ مارکیٹ تھی، جہاں اس وقت گاہکوں کا ہجوم تھا۔ میں نے دوست سے آنکھوں ہی آنکھوں میں گفتگو کی۔ اس نے ایک کاغذ ریڑھی پر رکھتے ہوئے ایک کوٹ کی جیب میں ڈال دیا۔ میں نے فوری طور پر وہ کوٹ خرید لیا اور وہ پرچہ لے کر ایک قریبی فوٹو کاپی شاپ پر پہنچا۔ فوٹو کاپی کروا کر اصل پرچہ اسی انداز میں ایک دوسری ریڑھی پر پڑے ایک کوٹ کی وساطت سے اسے واپس کر دیا۔ میں فوری طور پر دفتر واپس آیا، تاکہ اس پیغام کا متن صحیح طور سے پرکھا جاسکے ۔ میں نے راستے میں بھی اس پیغام کو پڑھنے کی کوشش کی مگر صرف اتنا جان سکا کہ یہ واشنگٹن سے بھیجا ہوا ایک ٹیلی گرافک پیغام ہے۔ دفتر آکر جب میں نے اس پیغام کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کیا، تو مجھے یہ پڑھ کر شدید حیرت ہوئی کہ واشنگٹن سے پاکستان میں اپنے دفتر کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ بھٹو کا پھانسی کے تختے تک پہنچنا یقینی بنایا جائے۔ اس پیغام میں بعض جنرل آفیسرز کی ریٹائرمنٹ اور تبادلوں کے بارے میں بھی ہدایت موجود تھیں۔‘‘
یہ نہ تو کسی انڈین فلم کی سکرپٹ ہے اور نہ ہی کسی جاسوسی ناول کا سین۔ یہ وہ سچ ہے جس پہ جھوٹ کے جتنے بھی پردے ڈال دیے جائیں، یہ کسی صورت بھی نہیں چھپ سکے گا۔ یہ کڑوا سچ آپ کو بر یگیڈئر ریٹائرڈ سید احمد ارشاد ترمذی جو کہ سابق چیف آف اسٹاف ڈائریکڑیٹ جنرل آئی ایس آئی رہ چکے ہیں، کی کتاب’’Profiles of Intelligence‘‘میں ملے گا ۔4 اپریل کی یہ تاریخ پچھلے 38 برس سے آتی ہے اور فکر کرنے والوں کو کہتی ہے: ’’سنو! قدرت نے تمھیں محمد علی جناح دیا، تم نے اس کی قدر نہ کی۔ اس کی وفات کے 69 سال گزرنے کے باوجود تم ابھی تک اس بحث میں پھنسے ہو کہ وہ لبرل تھا یا مولوی؟ وہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتا تھا یا سیکولر؟ افسوس کہ تم سمجھ نہ سکے۔ اس کے بعد ایک ٹوٹے ہوئے ملک کو پھر سے جوڑنے کے لیے ایک شخص ملا۔ تم نے اس کی بھی خوب قدر کی۔ تم ایک لاوارث قوم ہو۔ جس کا نہ کوئی راہنما ہوگا اور نہ کوئی سمت۔‘‘
آج جب خواجہ آصف امریکہ کو آنکھیں دکھاتے ہیں، تو پاکستانی عوام ان کے بیانات پر واہ واہ کرتے ہیں اور ان کی سیاست کو ایک طرف رکھ کر انہیں ایک عظیم ڈپلومیٹ بھی سمجھنے لگتے ہیں۔ عمران خان بھی امریکہ کے بارے میں اپنا مؤقف گاہے بگاہے پیش کرتے رہتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر اینٹی امریکن ہونا ہی پاکستانی سیاستدان کی نشانی ہے اور عوام اسی بات پر ووٹ دیتے ہیں، تو پاکستان میں بھٹو صاحب سے بڑا اینٹی امریکن اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
’’Gerald Feuerstein ‘‘ جو کہ چند سال قبل تک ’’یو ایس مِشن اِن اسلام آباد‘‘ کے ڈپٹی چیف رہے ہیں، اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بھٹو نے ہنری کسنجر کو آنکھیں دکھائی تھیں۔ گیرالڈ اپنے ایک انٹرویو میں کہتا ہے کہ’’یہ اگست 1976ء کا زمانہ تھا۔ بھارت ایٹم بم بنا چکا تھا اور پاکستان نے ایٹم بم بنانے کے لئے کوششیں تیز کر دی تھیں۔ میں ان دنوں پروٹوکول آفیسر تھا۔ ہنری کسنجر وزیراعظم بھٹو کو ایٹمی پروگرام پر کام روکنے کے لئے پاکستان آئے۔ لاہور میں دونوں کی ملاقات ہوئی۔ گفتگو شروع ہوئی۔ ہنری کسنجر کہنے لگے کہ مسٹر بھٹو، آپ کو یہ پروگرام فوراً بند کرنا ہوگا۔ بھٹو نے فوراً جوا ب دیا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے، اور اگر ہوتی بھی، تو شائد میں ایسا نہ کر پاتا۔ کسنجر کہنے لگے کہ اگر تم نے ایٹمی پروگرام ترک نہ کیا، تو ہم تمہیں نشانِ عبرت بنا دیں گے۔ بھٹو یہ سن کر غصے میں کہنے لگے کہ مسٹر کسنجر! یہ پاکستانی قوم کا حق ہے اور پاکستانی قوم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔‘‘
ذوالفقار علی بھٹو پر اعتراضات کرنے والے جو بھی کہیں، مگر ایک با ت اپنی جگہ حقیقت ہے، جسے ٹھکرانا بہت مشکل ہے۔ بھٹو ایک مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ قیدِ تنہائی اور پھانسی کا پھندہ بھی اسے نہ پگھلا سکا۔ اپنی آخری کتاب’’If I am assassinated‘‘ جو کہ انہوں نے جیل کی تنہائی میں لکھی تھی، کی چند سطریں بھٹو کی ذہنی سطح ماپنے کے لیے کافی ہیں۔
Since 18th March 1978, I have spent twenty two to twenty three hours out of the twenty four in a congested and suffocating death cell. I have been hemmed in by its sordidness and stink throughout the heat and the rain of the long hot summer. The light is poor. My eyesight is worsened. My health has been shattered. I have been in solitary confinement for almost a year but my morale is high because I am not made of wood which burns easily.
بھٹو صاحب کے قتل کو 38 برس گزر گئے۔ ہر سال چار اپریل کو میرے سامنے دو سوال آکھڑے ہوتے ہیں۔ جن کا جواب میں ابھی تک تلاش نہیں کر پایا۔ پہلا یہ کہ جب عدالتیں ایک سابق وزیراعظم کو انصاف فراہم نہیں کرسکیں، تو ایک عام شہری کو کیا انصاف دیں گی؟ جب انصاف دینے والے ہی جرم میں ملوث ہوں گے، تو انصاف کسے کہا جائے گا؟
دوسرا یہ کہ بھٹو کا قتل کس کے سر لکھا جائے گا؟ کیا بھٹو کا قتل امریکہ نے کیا؟ اگر قتل میں امریکہ شامل ہے، تو پھر پاکستانی عوام نے اس دوران مزاحمت کیوں نہیں کی؟ کیا یہ عوام قاتل ہیں یا پھر خود ذوالفقار علی بھٹو؟ اور اگر بھٹو اپنے قاتل خود ہیں، تو پھر اپنے ’’جرائم‘‘ کی ایک طویل فہرست ان کے پا س موجود ہے۔ جس کے ٹائٹل پر ’’قائدِ عوام‘‘ رقم ہے۔
………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔