جوں جوں سال 2018ء نزدیک آتا جا رہا ہے، پاکستان کی سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ، سیاسی اتحادوں کے قیام اور پارٹیوں میں شمولیتی پروگراموں کا سلسلہ عروج پر ہے۔ سیاسی پرندے ہوا کا رُخ دیکھ کر اسی طرف اُڑان بھرتے جا رہے ہیں، جہاں سے انھیں دانہ ملنے کی توقع ہو۔ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اپنے سیاسی فلسفہ سے مطابق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے بارے میں سرگرم ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں سابقہ اتحاد متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے )کی بحالی کے لئے سر گرم عمل ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند نظر آ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ آنے والے قومی الیکشن میں خاطر خواہ کامیابی کے لئے مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اجلاس میں طے پایا کہ یا تو متحدہ مجلسِ عمل کو بحال کیا جائے یا متحدہ مجلسِ عمل کے طرز پر ہی مذہبی سیاسی جماعتوں کا ایک نیا اتحاد عمل میں لایا جائے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ لاہور میں منعقد ہونے والے اجلاس میں اسی اجلاس کی تجاویز کو عملی شکل دی جائے گی۔ پہلی بار متحدہ مجلسِ عمل بننے کی راہ اس طرح ہموار ہوگئی کہ روس کی پسپائی کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا دور و دورہ تھا۔ ’’وار لارڈز‘‘ آپس میں لڑ رہے تھے، افغانستان میں بدامنی کا راج تھا۔ بلآخر طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔
طالبان کے دورِ اقتدار میں افغانستان کو امن و استحکام نصیب ہوا اور طالبان نے پورے ملک میں اسلامی نظام بھی نافذ کیا۔ ایک اسلامی ریاست پاکستان کے سنگ میں ایک اور اسلامی ریاست کا قیام امریکہ اور دیگر سامراجی طاقتوں کو قابلِ قبول نہ تھا۔ امریکہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں امن و سکون ہو، استحکام ہو۔ اس لئے امریکہ اور اتحادیوں نے افغانستان میں موجود القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں پر حملے کی دھمکیاں دینے کا آغاز کر دیا۔ اسی دوران میں اکوڑہ خٹک کے دارالعلوم حقانیہ میں ہم خیال مذہبی سیاسی جماعتوں کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں دفاعِ پاکستان کونسل قائم کی گئی۔ اسی سال 2001 ء کو امریکہ میں ’’نائن الیون‘‘ کا واقعہ پیش آنے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا، تو دفاعِ کونسل سے متحدہ مجلسِ عمل نے جنم لیا۔
مذہبی سیاسی جماعتوں نے متحدہ مجلسِ عمل کے پلیٹ فارم سے 2002ء کے الیکشن میں حصہ لیا۔ یوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کامیابی حاصل کی۔ متحدہ مجلسِ عمل نے خیبر پختونخوا میں بغیر کسی اتحاد کے حکومت بنائی اور وفاق میں حزب اختلاف کا عہدہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی، ان کے رہنما اور ورکرز مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد قائم کرنے کے فیصلے پر خوش دکھائی دیتے ہیں، لیکن اس بار مذہبی سیاسی جماعتوں کے کسی بھی نام سے قائم اتحاد پر عوام کے تحفظات ہوسکتے ہیں اور اس بار مذہبی جماعتوں کے درمیان قائم ہونے والے اتحاد کے اچھے نتائج برآمد ہونے کی امید بہت کم نظر آتی ہے، جس طرح کے نتائج انھیں 2002ء میں ملے تھے۔ کیونکہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے اس زمانہ میں بین الاقوامی اور مقامی سطح پر رونما ہونے والے کسی بھی واقعے کو عوام کی نظروں سے چھپانا اب ممکن نہیں رہا۔
ایم ایم اے نے جو کچھ اپنے دورِ اقتدار میں کیا، عوام جان چکے ہیں اس بار بھی وہی کچھ ہوگا۔ خیبر پختونخو اور بلوچستان کے اسلام پسند پختونوں نے اسلام کے نام پر مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ عمل کو ووٹ دے کر اسے کامیاب کرایا تھا، لیکن نومبر 2002ء میں متحدہ مجلسِ عمل کے خیبر پختونخوا میں حکومت کے قیام کے دو یا تین ماہ بعد چھ جماعتوں کے اتحاد میں دو بڑی سیاسی پارٹیوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی میں ذاتی مفادات کے حصول پر اختلافات پیدا ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے وزیر اعلیٰ اکرم درانی کی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے حکومت سے علاحدگی کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی، جبکہ وزرا اور عوامی نمائندوں کے درمیان بھی رابطوں کا شدید فقدان تھا۔
متحدہ مجلسِ عمل نے خیبر پختونخوا کے عوام کی بھلائی کے لئے کوئی کام نہیں کیا، ماسوائے اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور اپنے ورکروں کو خوش رکھنے کے۔ متحدہ مجلسِ عمل کی صوبائی حکومت اسلامی نظام اور اس کے نفاذ پر پورے پانچ سال تک خیبر پختونخوا کے عوام کے ساتھ کھلواڑ کرتی رہی۔ اس لئے ان کی یہ بیل منڈھے چڑھتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔اب پاکستانی عوام جان چکے ہیں کہ اس بار بھی اسلام پسند اپنے ذاتی مفادات کی خاطر انھیں سبز باغ دکھا کر دھوکا دینے کی کوشش کریں گے۔