پچھلے ایک سال سے پاکستانی عوام کو ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چلنے والے کیسز نے ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پاناما پیپرز کا معاملہ جب دنیا کے سامنے آیا، تو اس پر سب سے زیادہ شور وطن عزیز میں ہی مچایا گیا جس کے نتیجے میں نام شامل نہ ہونے کے باوجود ایک منتخب وزیراعظم کو حسبِ روایت گھر بھیج دیا گیا۔ پاناما لیکس کے حوالے سے جب پچھلے سال پٹیشن دائر کی گئی، تو اس کے چیف جسٹس نے اسے Frivolous قرار دیا تھا، تاہم مبینہ طور پر کسی دباؤ کے تحت سپریم کورٹ نے یہ پٹیشن منظور کردی جس کے منظور کرنے کے طریقے پر نامور قانون دان شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں اور جو خود عمران خان کے ایک انٹرویو میں جسٹس کھوسہ رابطے والے بیان کی وجہ سے متنازعہ ہوچکی ہے۔ پاناما بنچ اس وقت کے چیف جسٹس کے ریٹائرمنٹ کے بعد ٹوٹ گیا اور ایک نیا بنچ جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں بنایا گیا جس نے بیس اپریل کے فیصلے میں ایک جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا اور اسے تحقیقات مکمل کرنے کیلئے دو ماہ کا قلیل وقت دے دیا۔ جے آئی ٹی کی تشکیل بذات خود Whatsapp کال کی وجہ سے متنازعہ بن چکی ہے۔ جے آئی ٹی میں شامل ہیروں نے انتہائی عجلت سے کام لیتے ہوئے 14000 صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی، جو فرشتوں کی مدد کے بغیر مرتب کرنا پانچ بندوں کی بس کی بات نہیں۔ دو ماہ کا وقت تحقیقات کیلئے انتہائی کم تھا لیکن چوں کہ ایک فیصلہ جاری کرنا ہی تھا، اس لئے وزیراعظم کو پاناما کے بجائے ’’اقامہ‘‘ کی بنیاد پر گھر بھیج دیا گیا۔ اور پٹیشن جس بنیاد پر دائر کی گئی تھی، اس پر نیب ریفرنسز بنا کر احتساب عدالت ریفر کر دی گئی۔ اب اگر بات یہاں تک ایسی چلتی، تو بھی ٹھیک تھا لیکن ایک بار پھر اُسی بنچ کے ہی ایک ممبر جسٹس اعجازالحسن صاحب کو مانیٹرنگ جج کی ذمہ داری تفویض کی گئی جس نے بچھی کچھی کسر بھی نکال دی۔
اب آتے ہیں دوسری جانب، جن دنوں پاناما لیکس عام ہوئی، انہی دنوں یہ انکشاف بھی ہوا کہ جناب عمران خان صاحب بھی ایک عدد آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ جہانگیر ترین صاحب بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں شامل ہیں۔ خوشحال خان خٹک کا ایک شعر ہے کہ
کوھے مہ کنہ د بل سڑی پہ لار کی
چری ستا بہ د کوھی پہ غاہ لار شی
یعنی ’’چاہ کن را چاہ درپیش۔‘‘ اس شعر کے مصداق ن لیگ کے رہنما اور NA 56 سے 2013ء انتخابات میں عمران خان کے مدمقابل امیدوار حنیف عباسی نے جوابی پٹیشن دائر کردی۔ لیکن اب اس کیس کو سننے والے بنچ کے سربراہ اور موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب فرماتے ہیں کہ "Justice hurried is Justice buried.” اب اگر کسوٹی پر نواز کیس کو جانچا جائے، تو کیا یہی فقرہ حرف بحرف سچ ثابت نہیں ہوتا؟
عمران کیس کے بارے میں ثاقب نثار صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس کیس کو بھی پاناما کیس کے ساتھ اکٹھے سننا چاہئے تھا۔ کیوں کہ ایک کیس اگر باپ بیٹے کے معاملات پر مشتمل ہے، تو دوسرا کیس بھی میاں بیوی کے معاملے کا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ پتا نہیں اس وقت کے چیف جسٹس نے ان کیسز کو الگ کیوں کیا؟ کیوں کہ یہ کیس ایک جیسے ہی ہیں۔
آج کل جن خدشات کا اظہار پی ٹی آئی کے وکلا کرتے ہیں، کل تک وہ انہی خدشات کی مخالفت کرتے نہیں تھکتے تھے اور ن لیگ کے وزرا انہیں چیخ چیخ کر پکارتے تھے کہ اگر آج ہماری باری ہے، تو کل کو آپ بھی زیرِ عتاب آسکتے ہیں۔ لیکن خیر اب کیس عدالتوں میں ہیں اور پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ آیا جن آرٹیکلز کے تحت نواز شریف کی نا اہلی ہوئی ہے، کیا انہیں آرٹیکلز کے تحت عمران خان اور جہانگیر ترین کو متشابہ کیسوں میں نا اہل کیا جائے گا کہ نہیں؟
2018ء کے انتخابات سے پہلے صورتحال مکمل طور پر واضح ہو جائے گی۔ کیوں کہ کورٹ اور کیسز ایک ہی ہیں لیکن صرف سننے والے ججز مختلف ہیں اور یہ صورتحال مجھے اس بات پر مجبور کردیتی ہے کہ (علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی روح سے معذرت)
ایک ہی کورٹ میں کھڑے ہوگئے عمران و نواز
نہ عمران اہل رہے گا اور نہ وزیراعظم نواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(لفظونہ میڈیا کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں)