تجزیہ نگار: قیصر نذیر خاورؔ
مَیں نے پچھلے دنوں ایک برطانوی فلم ’’سوشل سُویسایڈ‘ ‘ (Social Suicide) دیکھی ہے۔ اس کی کہانی ’’جینٹ ویلز‘‘ نے ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ سے اثر لیتے ہوئے لکھی اوربعد ازاں ’’رابرٹ کلیچا‘‘ کے ساتھ مل کر اسے فلم سکرپٹ میں ڈھالا۔ اسے ڈایریکٹر ’’بروس ویب‘‘ نے بنایا تھا ۔ یہ فلم پہلی بار 1 اکتوبر 2015ء کو ریلیز ہوئی تھی۔
میرے پاس اس فلم کو دیکھنے کی دو وجوہات تھیں؛
٭ اول، مَیں یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے وسط میں شیکسپیئر کے اس مشہورِ عالم المیہ ڈرامے سے، متاثر ہو کر کچھ نیا کیسے لکھا جا سکتا ہے؟
٭ دوم، مَیں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ’’اولیویا ہسے‘‘ (Olivia Hussey) اور لیونارڈ وایٹنگ (Leonard Whiting) اس فلم میں کون سے کردارادا کر رہے ہیں؟ یہ جوڑی اس فلم سے قبل فقط ایک بار 47 برس پہلے 1968ء میں ایک ساتھ آئی تھی۔ 1968ء میں یہ دونوں اطالوی فلم ڈ ایریکٹر ’’فرانکو زفریلی‘‘ کی فلم ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ میں آئے تھے۔ ’’اولیویا ہسے‘‘ اس میں جولیٹ بنی تھی…… جب کہ لیونارڈ وایٹنگ نے رومیو کا کردار ادا کیا تھا؛ وہ دونوں بالترتیب 16 اور 17 سال کے تھے۔ اس فلم کے بعد دونوں اپنی اپنی جگہ فلموں میں تو کام کرتے رہے، لیکن کبھی دوبارہ ساتھ کام نہیں کیا۔
’’سوشل سُویسایڈ‘ ‘ میں کام کرتے وقت ان کی عمریں 63 اور 64 برس تھیں اوروہ اس فلم کی ’’جولیا‘‘ کے والدین کے کردار میں سامنے آئے۔ ’’جولیا‘‘ کا کردار ’’انڈیا ایسلے‘‘ نے ادا کیا ہے جو حقیقی زندگی میں بھی ’ ’اولیویا ہسے‘ ‘ کی بیٹی ہے اور فلم میں کام کرتے وقت لگ بھگ اکیس سال کی تھی۔ گو اس کا کردار ایک ’’ٹین ایجر‘‘ کا ہے۔ اس کے مقابل ’’رییس‘‘ کا کردار’’رولو سکینر‘‘ نے ادا کیا ہے اور اس کے دوست ’’بالتازار‘‘ کا کردار ’’جیکسن بیوز‘‘ نے نبھایا ہے۔
’’سوشل سُویسایڈ‘‘ میں نہ تو’’وینیٹو‘‘ کا ’’ویرونا‘‘ ہے اور نہ ’’مونٹیگو‘‘ اور ’’کیپولیٹ‘‘ کلان ہیں۔ اس میں سیدھے سیدھے لندن ہے اور اس میں ایسے ٹین ایجر دوستوں کا ایک گروپ جو باقاعدہ طور پر ’’واینر‘‘ (Viner) ہیں اور اپنی ویڈیوز انٹرنیٹ پر اِس اُمید میں اَپ لوڈ کرتے ہیں کہ مشہور ہوسکیں۔
اس فلم کی کہانی ’’بالتازار‘‘ ، ’’رییس‘‘ ، ’’مارک‘‘ ، ’’جولیا‘‘ اور اس کے عم زاد ’’ٹائی‘‘ کے گرد گھومتی ہے۔ ’’بالتازار‘‘ ایک ایسا خبطی نوجوان ہے جو ہر وقت ویڈیو کیمرہ ساتھ رکھتا ہے…… اور ایسی ویڈیوز بنانے کے چکر میں ہے جو اسے دس لاکھ ’’ہٹس‘‘ اور’’لایکس‘‘ دلا سکے۔ وہ غصیلا ہے اور دماغی طور پر بھی الجھا رہتا ہے۔ اس کے دوست رییس اور جولیا اس لیے قریب آتے ہیں کہ وہ مل کر باقاعدگی کے ساتھ اپنی ویڈیوز اَپ لوڈ کرسکیں۔ لوگ انہیں پسند بھی کرتے ہیں۔ یہ ملنا محبت میں بدل جاتا ہے۔ ’’بالتازار‘‘ فروتنی ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر بھی پچھڑا ہوا ہے۔ وہ اس جوڑے سے حسد کرتا ہے۔ مارک اور ٹائی حادثاتی طور پر مر جاتے ہیں لیکن الزام ’’رییس‘‘ کے سر آتا ہے۔ ’’بالتازار‘‘ اس کا فایدہ اٹھاتا ہے اورجولیا اور رییس کو اپنے جال میں جکڑتا ہے؛ اِدھر اُدھر کی لگا کر وہ جولیا کو زیادہ مقدار میں خواب آور گولیاں کھلا کر ہسپتال جانے پر مجبور کر دیتا ہے، جب کہ رییس کو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جولیا مر چکی ہے۔ اس پر رییس بھی خواب آور گولیاں کھا کر جولیا کے بستر پر ہی لیٹ جاتا ہے؛ جولیا ہوش میں آتی ہے اور رییس کو مرا دیکھ کر اپنی کلائی کی نسیں کاٹ لیتی ہے۔ ’’بالتازار‘‘ گو زیرِ تفتیش آتا ہے، لیکن ایک بار بچنے میں کامیاب ہونے کے بعد آخرِکار پکڑا جاتا ہے۔
’’مونٹیگو‘‘ اور ’’کیپولیٹ‘‘ قبیلوں اوران کے نوجوانوں میں دشمنی اِس فلم میں حسد کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے…… اور اس فلم کے ’’ٹین ایجر‘‘ اپنے خاندانوں سے لاتعلق کٹے ہوئے اور تنہا دکھائے گئے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں…… اور یہ کہ ان کے کام انہیں کس خطرے میں پھنسا دیں گے۔
’’بالتازار‘‘ جب ایک بار پولیس کے ہاتھوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو ماہر نفسیات اسے مشورہ دیتا ہے کہ وہ ’’واینر‘‘ بننے سے باز رہے اورحقیقت کی دنیا میں جینا سیکھے…… لیکن وہ ایسا نہیں کر تا اور بالآخر پکڑا جاتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سراغ رساں ’’ڈالٹن‘‘ کی اپنی بیٹی بھی’’واینر‘‘ ہے اور اپنی ایروبکس کی ویڈیوز اَپ لوڈ کرتی ہے۔
یہ فلم 16ویں صدی کی آخری دہائی کے المیہ ’’رومان‘‘ کو اکیسویں صدی کے اُس سفاک سرمایہ دارانہ سماج کے سٹیج پر لا پھینکتی ہے جس پر بلوغت کی ’’ہارمونل‘‘ افراتفری ہے، خاندان ٹوٹ چکے ہیں، معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور نئی نسل بے مہار ہے…… اور بقول انڈین فلم میکر و ’’لیفٹسٹ صوفی‘‘ سعید مرزا (’’موہن جوشی حاضر ہو‘‘ ، ’’البرٹ پِنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے‘‘ فیم) اس معاشرے کی جمالیات و اخلاقیات آوارہ گرد ہوچکی ہے۔ سماج ہے کہ بذاتِ خود خودکُشی کر رہا ہے…… نہ کہ اس فلم کی جولیا اور رییس۔
میرا خیال تھا کہ جینٹ ویلز ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ سے کچھ ایسا اثر لے گی کہ ’’جولیا‘‘ اور ’ ’’رییس‘‘ کا المیہ ہی سامنے رہے گا…… جیسے 1970ء کی ’’ایرچ سیگل‘‘ کی ’’لو سٹوری‘‘ (Love Story) میں’’اولیور‘‘ اور ’’جینی‘‘ کا المیہ سامنے رہا تھا اور ایک سپر ہٹ فلم سامنے آئی تھی، لیکن اس فلم میں ٹین ایج ’’جوڑے‘‘ کی موت پسِ پشت پڑ جاتی ہے اور رونا آتا ہے، تو ’’بالتازار‘‘ پر اور اس سماج پر، جو سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں اپنی وضع قطع ہی کھوچکا ہے۔
فلم عمومی طور پر دیکھنے کے لایق ہے؛ ہدایت کاری، اداکاری، تدوین، موسیقی وغیرہ سب معیاری ہیں…… البتہ کہانی جو پیغام دیتی ہے…… وہ بہت توانا اور قوی ہے؛ ’’سماج اور والدین دھیان کریں اور نئی نسل کو بچائیں۔‘‘ اس کا یہی پیغام ہے…… جو ناقدینِ فلم کو پسند نہیں آیا تھا…… اور انہوں نے اس پر منفی تبصرے کیے تھے۔ یہ باکس آفس پر بھی اسی لیے کامیاب نہ رہی تھی کہ ’’آئینے‘‘ میں اپنا بھدا عکس کون دیکھنا پسند کرتا ہے۔
قارئین! مجھے یہ فلم دیکھ کر وقت کی بے رحمی کا بھی احساس ہوا؛ میرے لیے یہ کل ہی کی بات تھی کہ مَیں نے ’’زفریلی‘‘ کی ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ میں ’’اولیویا ہسے‘‘ (Olivia Hussey) اور ’’لیونارڈ وایٹنگ‘‘(Leonard Whiting) کو 16 اور 17 سال کی عمر میں شیکسپیئر کے مرکزی المیہ کردار نبھاتے دیکھا تھا…… اور اب یہ اس فلم میں اکٹھے تو ضرور ہیں…… لیکن مختصر کرداروں میں، سلیٹی بلکہ سفید بالوں اور گہری جھریوں والے چہروں کے ساتھ ایسے، جیسے کہ مہمان اداکار ہوں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔