پیکا قانون، آزادیِ اظہار پر قدغن

’’پیکا ترمیمی آرڈیننس‘‘ آزادیِ اظہار کی ہر آواز کو دبانے کے لیے لایا گیا ہے۔ یہ پاکستانی صحافیوں کو خوف زدہ کرنے اور خاموش کرانے کا ذریعہ ہے، اور جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ پارلیمنٹ کی موجودگی میں صدارتی آرڈیننس غیر آئینی ہے۔
قارئین! پیکا آرڈیننس ایک آمرانہ قانون ہے…… جو کہ آزادیِ اظہار پر قدغن اور لوگوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔ ملکی سلامتی اور سیکورٹی خدشات کے پیشِ نظر سوشل میٖڈیا پر منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف حکومتی اقدامات تو سمجھ میں آتے ہیں…… لیکن حکومتی پالیسیوں اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف اس قانون کا استعمال سمجھ سے بالاتر ہے۔ پیکا قانون کے تحت عام لوگوں کی آواز کو دبانا غیر جمہوری عمل اور عام شہری کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی قانون سازی نہ کرے…… جس کا کل خود شکار بنے۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون سازی ضرور کی جانی چاہیے۔ یہ ایک اچھا عمل ہے کہ اس سے سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور سایبر جرایم کو روکا جاسکتا ہے…… مگر اس ضمن میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس قانون کے نافذ ہونے کی صورت میں تنقید، اختلافِ رائے اور ’’ڈیفامیشن‘‘ میں فرق لازمی کیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ ماضی میں یہ فرق روا نہیں رکھا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا میں عمومی طور پر اور سوشل میڈیا میں خصوصی طور پر لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ ان پر جھوٹے اور غلیظ الزامات لگائے جاتے ہیں…… اور اس غلاظت کا شکار کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ جان بوجھ کر جھوٹے الزام لگانے والوں، جھوٹ گھڑنے والوں کی کوئی گرفت نہیں۔
اس غلاظت کا شکارحکومتی شخصیات ہی نہیں…… بلکہ اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جج، جرنیل، صحافی اور یہاں تک کہ عام لوگ بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس شر سے محفوظ نہیں۔
سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں تو ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ جھوٹی مہم اور پروپیگنڈا مہم چلاتے ہیں…… جس کے لیے سوشل میڈیا ٹیمیں بھی رکھی گئی ہیں۔ اسی کام کے لیے سرکاری اداروں تک نے اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بنا رکھی ہیں…… اورسب سے زیادہ ’’فیک نیوز‘‘ اور گالم گلوچ تحریکِ انصاف کی طرف سے آتی ہیں۔ اس گندے کلچر کو روکنے کے لیے ریاست کو اگر ایک طرف قانون سازی کرنی چاہیے، تو دوسری طرف ہمارے سیاسی رہنماؤں کا یہ فرض ہے کہ اس گندگی کو ختم کرنے کے لیے پہل کریں…… اور عوام کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹروں، سپورٹروں اور اراکینِ پارلیمنٹ وغیرہ سے اپیل کریں کہ بدزبانی، الزام تراشی، بہتان تراشی اور گالم گلوچ سے باز رہیں۔ جمہوری معاشرے میں حکومت پر تنقید ریاست پر تنقید نہیں ہوتی۔ اگر آپ سوشل میڈیا پر پابندی لگائیں گے، تو ملک میں افواہوں کا طوفان آئے گا…… جس سے ملک کو نقصان ہوگا۔
پیکا قانون 2016ء میں مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں بنا۔ اس وقت بھی میڈیا اور سول سوسایٹی کی تنظیموں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تھا…… اور خبردار کیا تھا کہ اسے آزادیِ صحافت اور اظہارِ رائے کے حق کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت اب اس سے بھی بہت آگے چلی گئی…… اور اس کا دایرہ ریاستی اداروں تک بڑھا کر شہریوں کو ان کے بارے میں آواز اٹھانے کے حق سے بھی محروم کردیا۔ حالاں کہ حکومت اور سرکاری اداروں سے عوام کو شکایات ہوتی رہتی ہیں اور ان کے اِزالے کے لیے ان شکایات کو میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پر لانا ان کا آئینی حق ہے۔ ایسی کئی مثالیں بھی موجود ہیں کہ وزارتِ اطلاعات اظہارِ رائے کی آزادی کو مسخ، صحافیوں کو خبر دینے کے حق سے محروم اور صحافت پر اثر انداز ہونے کے لیے میڈیا کو مالی طور پر کم زور کر رہی ہے۔ یہ خطرناک رجحان حکومت، میڈیا اور میڈیا ورکرز کے مابین فاصلے پیدا کر رہا ہے۔ اس قانون میں ایسا بہت کچھ ہے جسے حکم ران صحافیوں اور سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان کو نشانہ بنانے کے لیے غلط طریقے سے استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام میڈیا تنظیمیں آزادیِ اظہارِ رائے کے تحفظ اور عوام کے اطلاعات تک رسائی کے حق کی حفاظت کے لیے متحد اور سراپا احتجاج ہیں۔
وکلا، سول سوسایٹی اور ہیومن رایٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اظہارِ رائے کی آزادی کے حق میں میڈیا تنظیموں سے یک جہتی کا اعلان کیا ہے۔
پاکستانی عوام جہاں اس وقت شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہیں…… وہاں یہ چاہنا کہ کوئی چوں تک نہ کرے، غلط ہے۔ عوام کے شہری حقوق اور آزادیِ صحافت کا تقاضا ہے کہ حکومت متنازعہ قانون کو انا کا مسئلہ نہ بنائے…… بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے قانون سازی کرے اور اظہارِ رائے کی آزادی کو یقینی بنائے۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔