اللہ تعالا نے اپنی ہزاروں مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔ اللہ تعالا کے فرمان کا مفہوم ہے، اس نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔
انسانی جسم قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ اس جسم کے تمام اعضا ہی انمول ہیں۔ موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی اور جدید ترین ایجادات کا دور ہے…… لیکن اس مادی ترقی اور دنیا بھر کے سائنس دانوں کی نت نئی ایجادات کے باوجود وہ انسانی جسم کا کوئی ایک بھی عضو نہیں بنا سکے…… جو ہر طرح سے بالکل قدرت کے بنائے گئے اعضا جیسا ہو۔
یوں تو انسانی جسم کے تمام اعضا انمول ہیں۔ ایک بھی ضایع ہو جائے یا پیدایشی طور پر نہ ہو، تو دنیا بھر کے مال و دولت سے بھی جسم کا یہ عضو اس شکل میں خریدا نہیں جاسکتا۔
انسانی جسم میں اللہ تعالا کی انمول نعمتوں میں سے ایک انتہائی اہم نعمت بینائی ہے…… جس سے انسان اللہ کی پیدا کردہ کاینات میں اور اس دنیا میں اپنے اردگرد موجود رنگیاں دیکھتا ہے۔ بینائی کی محرومی کا مطلب کاینات اور دنیا کی رنگیوں کے مشاہدے اور استفادے سے محرومی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بینائی سے محروم کئی افراد نظر آتے ہیں…… لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی اس محرومی کو کم زوری کی بجائے اپنی طاقت بنایا۔ ان ہی میں سے ایک نوجوان نعمان ولد مشتاق آرائیں ہے…… جو 1992ء میں میرپور خاص ضلع کی تحصیل ڈگری کے گاؤں دیہہ 181 میں پیدا ہوئے۔ نعمان مشتاق کو پیدا ہوتے ہی بینائی کے مسایل کا سامنا تھا۔ وہ دن میں سورج کی روشنی میں تو دیکھ سکتے تھے…… لیکن رات کے وقت چیزوں کے مشاہدے سے محروم تھے۔ ایف ایس سی کے بعد وہ دن میں سورج کی روشنی میں دیکھنے کی نعمت سے بھی مکمل طور پر محروم ہوگئے…… تاہم انہوں نے اپنی اعلا تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا۔ ’’آرمی پبلک اسکول حیدر آباد‘‘ سے میٹرک اور ’’سپیرئیر سائنس کالج‘‘ سے ایف ایس سی پری میڈیکل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس دوران میں وہ بینائی سے محروم ہوگئے…… تاہم سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ کیوں کہ نعمان مشتاق کا کہنا ہے کہ انہیں ڈاکٹر بننے کا شوق تھا…… جس کا اظہار انہوں نے اپنے آنکھوں کے معالج سے کیا، تو انہیں نے حوصلہ افزائی کی بجائے انتہائی مایوس کن جملہ کہا کہ ’’لنگڑے گھوڑے ریس میں حصہ نہیں لیتے……!‘‘
کہتے ہیں:’’ مَیں نے اپنی خامی پر مایوسی کی بجائے اسے قوت بناتے ہوئے ڈاکٹر بننے کے لیے تعلیم کے حصول کا فیصلہ کیا اور اپنی محنت، ماں باپ کی دعاؤں اور اللہ تعالا کے فضل و کرم سے 2015ء میں سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈگری حاصل کرکے پاکستان کے پہلے اور واحد نابینا فارماسسٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا…… اور یہیں ایک سال اٹنرن شپ پر رہے۔ سندھ یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران میں اساتذہ نے تعلیم کے حصول میں میری بھرپور مدد کی۔‘‘
اس کے بعد نعمان مشتاق 2018ء میں مزید تعلیم کے حصول کے لیے ’’اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، پنجاب‘‘ چلے گئے اور وہاں سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی بیماری کے علاج کے لیے اسلام آباد،کراچی،لاہور سمیت امریکہ سوئٹزر لینڈ سے رابطہ کیا…… لیکن اس حوالے سے ماہرین امراضِ چشم کا کہنا ہے کہ ’’آرپی‘‘ نامی اس بیماری کا فی الحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ اس پر ریسرچ جاری ہے۔
نعمان مشتاق کا کہنا ہے کہ بینائی سے محروم افراد کو بے شمار مسایل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ہر کام کے لیے کسی دوسرے فرد کے مہتاج ہوتے ہیں۔ بڑا مسئلہ گھر سے باہر نکلتے وقت ہوتا ہے…… نہ ہموار روڈ، جابجا پارکنگ اور عمارتوں میں قایم دفاتر میں جانے کے لیے سیڑھیوں پر چڑھنا بڑا مسئلہ ہے۔ بینائی سے محروم افراد کے لیے عمارتوں میں ’’ریمپ‘‘ ہونا چاہیے۔
ان مسایل کے ساتھ ساتھ (بینائی سے محرومی کے بعد) انہیں معاشرے میں لوگوں کے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کہتے ہیں، لوگ ہم جیسے افراد کو کسی الگ دنیا کی مخلوق سمجھتے ہیں…… لیکن میں شکر گزار ہوں اپنے ماں باپ کا…… جنہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور تعلیم کے حصول کے لیے وسایل فراہم کیے۔ بینائی سے محرومی کے بعد مجھے تعلیم کے حصول کے لیے لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور موبائل فون پر بولنے والے سافٹ ویئرز کا سحارا لینا پڑا۔ یہ چیزیں سیکھنے کے لیے بینائی سے محروم افراد کے لیے کام کرنے والی اسلام آباد کی این جی اُو ’’پاکستان فاؤنڈیشن فار فائٹنگ بلائنڈنیس‘‘ کا ممنون و مشکور ہوں…… جس نے شارٹ کورسز کے ذریعے تعلیم کے حصول میں میری مدد کی۔
کہتے ہیں، اس حوالے سے بینائی سے محروم افراد کے لیے بنائے گئے بولنے والے سافٹ ویئر ’’جوز‘‘ (JAWS) سے سو فیصد تعلیم کا حصول ممکن ہے۔ اپنی بینائی سے محروم ہونے کی کم زوری کو قوت بنانے والا قوم کا انمول ہیرا نعمان مشتاق اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پنجاب سے ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسی یونیورسٹی میں وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ بہتر اور باعزت روزگار کے حصول کے خواہشمند ہیں…… جس کے حصول کے لیے انہوں نے اکتوبر 2021ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں لیکچرار کی 165 پوسٹ میں پانچوں فارمیسی میں ڈس ایبل کوٹا کی 5 پوسٹس ہیں…… کے لیے اپلائی کیا، لیکن تاحال انٹرویو کال تک نہیں کی گئی…… جس پر پاکستان کا یہ انمول ہیرا مایوسی کا شکار ہے۔
اس نے وزیراعظم پاکستان، گورنر پنجاب اور وزیرِ اعلا پنجاب سے اپیل کی ہے کہ وہ اسے اس کا جایز حق دلوانے میں اس کی مدد کریں…… تاکہ بینائی سے محروم افراد کی حوصلہ افزائی ہوسکے…… اور وہ بھی اس معاشرے کے ایک کامیاب فرد کی حیثیت سے زندگی بسر کرسکیں۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔