نیازی سرکار اور گلوبل کرپشن انڈیکس

پیسہ، لالچ اور دنیاوی مراعات سب انسان کی کم زوری رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ قدیم سے یہ چیزیں انسانی معاشرے کے مختلف شعبوں خصوصاً سرکاری شعبوں میں رائج رہی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں کرپشن کی انسداد کے لیے قوانین نافذ ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں انسدادِ بدعنوانی کے سلسلے میں قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہورہا ہے جس کی وجہ سے وہاں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے…… لیکن بدقسمتی سے تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کرپشن کی زنجیروں میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ یہاں قوانین ابھی غیر مؤثر ہیں…… جس کی وجہ سے یہ ممالک جس میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے، ترقی کی دوڑ میں اس جدید دور میں بھی بہت پیچھے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اتنا کرپشن نہیں تھا، جتنا آج ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق یعنی (نواز شریف، زرداری) کے دورِ حکومت میں چالیس ارب روپیہ کا کرپشن روزانہ ہورہا تھا۔ اب خدا جانے اس کی مقدار میں کتنا اضافہ ہوا ہوگا…… جو ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
دنیا کے ممالک میں کرپشن کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نامی ایک بین الاقوامی ادارہ دنیا کے ممالک میں کام کررہا ہے۔ اس سلسلے میں اس ادارے نے گذشتہ روز 2021ء کے لیے گلوبل کرپشن انڈیکس پیش کیا ہے…… جس کے مطابق پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں کرپشن میں 140 نمبر پر ہے۔ اس سے پہلے سال 2019ء میں پاکستان کرپشن میں 120ویں نمبر پر تھا اور اگلے سال 2020ء میں 124ویں نمبر پر آیا تھا اور آخری مرتبہ 2021ء میں 140ویں نمبر پر آیا۔
حیرت کا مقام یہ ہے کہ یہ رپورٹ اس وقت منظرِ عام پر آیا جب موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت آج سے ساڑھے تین سال پہلے اس نعرے کی بدولت بر سر اقتدار آئی کہ حکومت میں آکر وہ کرپٹ عناصر کا محاسبہ کرے گی اور بد عنوانی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے گی۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صورتِ حال مایوس کن ہے…… اور ہر شعبہ روبہ تنزل ہے جس کا نتیجہ یقینا اچھا نہیں ہوگا۔
اقوامِ متحدہ کے آفس برائے ڈرگز اینڈ کرائمز کے مطابق کسی بدعنوان ملک میں سرمایہ کاری بدعنوانی سے پاک ملک کی نسبت 20 فیصد مہنگی پڑتی ہے…… جس کی وجہ سے بدعنوان ملک ترقی میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
ہماری یادداشت کے مطابق وطنِ عزیز میں کرپشن پرچی، ٹیلی فونک ٹاک، چائے پانی اور مٹھائی تک محدود تھی…… لیکن گذشتہ چالیس سال سے ہم اس فیلڈ میں پوری طرح ایڈوانس ہیں۔
بقول کسی منچلے کے پاکستان اب ایسا ملک ہے جہاں "Money Speaks” یعنی صرف پیسہ بولتا ہے۔
کسی سرکاری دفتر میں درجۂ چہارم کی پوسٹ کی بولی لگ جاتی ہے اور یہ پوسٹ لاکھوں میں بکتی ہے۔ یہاں بڑے بڑے منصوبوں اور سودوں میں اربوں روپے کی خرد برد کی جاتی ہے۔ بیرونی قرضہ جات، قدرتی آفات اور بیماریوں سے متاثرہ افراد کے لیے بیرونی ممالک کی طرف سے بھیجے گئے نقد رقوم اور اشیائے ضروریہ کو راتوں رات غایب کرکے ہڑپ کی جاتی ہیں…… یہاں تک کہ اس ملک میں گریڈ 17، 18 اور 19 کے اَسامیوں پر براجمان افسران نے اپنی بیگمات اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے نام یا فرضی نام زکوٰۃ فہرستوں میں درج کرکے باقاعدہ زکوٰۃ وصول کرکے بے کسوں، بیواؤں، یتیموں اور ناداروں کا حق مار رہے ہیں۔
الغرض بدعنوانی کا کینسر آج ہمارے قومی جسم میں اتنا پھیل چکا ہے کہ اسے جڑوں سمیت کاٹنا ہوگا۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔