الیکشن 2021ء میں آزادکشمیر کے تمام اضلاع میں سب سے زیادہ آزاد اُمیدوار ضلع نیلم سے دیکھنے کو ملے۔ بس صرف دیکھنے کو ملے کیوں کہ 99 فی صد الیکشن کے دن سے پہلے اپنی ساکھ، نظریہ، بلند بانگ نعرے، نام نہاد انقلابی سوچ، اعلا تعلیمی ڈگریاں وغیرہ وغیرہ سب روایتی سیاست دانوں کی جھولی میں بطورِ نذرانہ پیش کرچکے تھے…… جو ایک فیصد رہ گئے تھے۔ ان کی داستانِ غم بیٹھ جانے والوں سے بھی دردناک ہے۔بس یوں سمجھ لیں جب سب بیٹھ گئے، تو ان کے بیٹھنے کی جگہ ہی نہ بچی۔
لہٰذا انہوں نے کھڑے رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔
آزادکشمیر کے سبھی اضلاع میں یہی صورتِ حال دیکھنے کو ملی۔ جیسے ہی الیکشن نتایج کا اعلان ہوا، تو رُت ہی بدل گئی۔ پی پی کو ووٹ دینے والے ن لیگ کے جیتنے والے امیدوار کو مبارک باد دینے پہنچ گئے…… اور ن لیگ کو ووٹ دینے والے پی پی کے جینے والے امیدوار کو مبارک باد دینے پہنچ گئے۔ پی ٹی آئی کو مبارک باد دینے کے لیے نسونس، پہجو پہج، چمڑوچمڑ، پہلچو پہلچ تے ترپوترپ جیسی صورتِ حال تھی۔ چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار خراماں خراماں واپس پنڈی، اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی طرف کھسکنے لگے۔ یوں الیکشن سے پہلے اپوزیشن کی باتیں کرنے والے کانوں میں روئی ٹھونس کر رفوچکر ہوگئے۔
نیلم میں جناب شاہ اور میاں صاحب نے آپس میں مک مکا کر کے الحاج سرکار کو اکھاڑے سے باہر کردیا۔ مسلم کانفرنس نے ہر ممکن مفاد حاصل کرنے کی سعی کی…… مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔ مسلم کانفرنس نے چند بکروں کے بدلے ٹکٹ تقسیم کیے، تو آخر میں مینگڑاں ای ملیاں۔ ہمارے میاں صاحب بھی دیرینہ رفاقت کو چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہوگئے۔ شاید کچھ بھانجے بھتیجے لگوانے کی امید باقی ہو۔ آج تک عوام علاقہ کے ووٹوں کے نام پر اپنی جیبیں بھری ہیں اور اپنے رشتہ دار ہی لگائے ہیں۔
نیلم ڈویلپمنٹ بورڈ اور کشمیر کونسل کی نشستوں کے وعدوں پر ایم فل پرایمری پاس کے چرنوں میں جاگرے مگر کوئی امید بر نہیں آئی۔ واحد حل…… جماعت اسلامی والے تو اب ’’واٹس اپ گروپس‘‘ اور سوشل میڈیا سے بھی غایب ہوچکے ہیں۔ جماعت اپنی ماضی کی روش پر چل رہی ہے یعنی منبرو محراب پر چپ رہ کر عہدے اور مفادات حاصل کرنا۔
’’تحریک لبیک‘‘ مذہبی چورن کے نام پر جماعت اسلامی سے بہتر ووٹ لینے میں کامیاب تو ہوئی مگر الیکشن کے بعد چپ سادھ لی ہے۔ چند دن پہلے ان کے گم شدہ کارکنان اپنے سربراہ کے ولیمے کے لیے وایبریشن کرتے دکھائی دیے اور پھر سایلنٹ موڈ پر لگ گئے ہیں۔
’’لبریشن لیگ‘‘ کے امیدواران تو کیا ان کا صدر آزاد امیدوار کے برابر بھی ووٹ نہ لے سکا۔ اب اپوزیشن کرنے کے لیے نہ کوئی فرزندِکشمیر ہے، نہ فخرِکشمیر، نہ سپوتِ کشمیر، نہ محافظِ کشمیر، نہ شانِ کشمیر، نہ کوئی کمانڈر اور مجاہدِ کشمیر۔ میراکشمیر جوں کا توں ہے اور یہ سیاسی ہفتہ باز سبز باغ دکھا کر رفو چکر ہوچکے ہیں۔
لاٹری تو ان لوگوں کی نکلی جن کی حکومت نہیں بنی۔ یہ سیاسی شہید بن چکے ہیں۔ نہ کام کے نہ کاج کے…… دشمن قومی اناج کے۔ 5 سال تک ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہ، مراعات، سہولیات اور ایم ایل اے فنڈز لے کر کہنا ’’ہماری حکومت ہی نہیں ہم کیا کریں!‘‘
سابقہ سپیکر آزادکشمیر تو برسرِاقتدار ہوتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ’’میری ڈی سی نہیں سنتا!‘‘ اب تو شاید چپڑاسی بھی نہ سنتا ہو۔ رہے میاں صاحب، اب موبایل بھی مہنگے والے ہیں۔ اب موبایل توڑنے والا کام بھی مشکل ہے۔ سب نے اپنی دکان داری چمکالی ہے۔ بس بے چارے عوام ہیں کہ وہیں کے وہیں ہیں۔ غریب کے نام پہ ووٹ لینے والے امیر ہوگئے اور غریب کو دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ الیکشن سے پہلے سب بڑی سیاسی پارٹیوں کی اجارہ داری کے خلاف تھے…… مگر متحدہ کشمیر/ نیلم محاذ بناکر الیکشن تو نہ لڑسکے کم از کم ’’متحدہ اپوزیشن محاذ کشمیر‘‘ بنا کر اپوزیشن تو کرسکتے ہیں…… مگر یہ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ کیوں کہ ان کا مقصد کشمیر نہیں نوکریاں، تبادلے، سکیمیں، ٹھیکے اور اپنی دیہاڑی لگانا ہے۔
جماعت اسلامی ہویا لبیک…… لبریشن لیگ ہو یا مسلم کانفرنس…… ن لیگ ہو یا پی ٹی آئی…… آزاد امیدوار ہوں یا دیگر پارٹیاں…… سب ’’کھا پی اور لمبی تان کے سوجا!‘‘ کے چکروں میں ہیں۔
سیاسی پارٹیوں کے حکومتی پارٹی کے ساتھ ماضی کے الحاق اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ یہ مفادات کے لیے اپنا نظریہ تک بیچ دیتے ہیں۔ رہے آزادامیدوار، تو وہ بے چارے معصوم ہیں۔ ان کو تو خود نہیں پتا کہ وہ الیکشن کیوں لڑرہے تھے؟ کچھ نوکری کے لیے لڑ رہے تھے، کچھ انا کی تسکین کے لیے، کچھ شہرت، کچھ ضد، کچھ بیٹھنے کے لیے، کچھ لیٹنے کے لیے، کچھ اپنا سیاسی کاروبار چمکانے کے لیے، کچھ سیاسی ایڈجسٹمنٹ کے لیے، کچھ سیاسی پارٹیوں کے کہنے پر اور کچھ دیگر مفادات کے لیے میدان میں اترے تھے۔
’’ہم خیال گروپ‘‘ ایسا شڑپ ہوا کہ کیا کہوں! ہم خیال کے امیدوار نے کلمہ پڑھ کر کہا کہ ’’بیٹھوں گا نہیں!‘‘ وہ بیٹھاواقعی نہیں…… لیٹ کر ہی دم لیا۔
مقامی سیاسی چیلوں کو نہ تو کسی پارٹی سے سروکار ہے اور نہ کسی شخصیت ہی سے۔ان کا مقصد ٹھیکوں اور سکیموں کے ذریعے مال بٹورنا ہے۔ عام ووٹر اب بھی کس مہ پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
کچھ بڑے مقامی سیاسی چیلے پہلے نوجوانوں کو نشے پہ لگواتے ہیں۔ پھر ان سے چوریاں کرواتے ہیں۔ مال خود کھا جاتے اور چوروں کو یاتو بچا دیتے یا بھگا دیتے۔ ان نقب زن گروہوں میں کچھ مقامی سیاست دانوں اور آستانہ نشینوں کے بچے بھی شامل ہیں۔
پورے کشمیر کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اگر ہم سیاسی پارٹیوں سے پیوستہ رہ کر بہتری یا اپوزیشن کی امید لگائے رکھیں گے، تو یہ عبث ہے۔ سیاسی پارٹیاں اور افراد اپوزیشن نہیں، اپنی پوزیشن کے بارے فکر مند رہتے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری کشمیر کے پڑھے لکھے، باشعور اور غیور نوجوانوں کے کندھوں پر ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔
اس الیکشن میں اکثر اعلا تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اپنی ڈگریاں، قابلیت، اہلیت، جد و جہد، نظریہ سب کچھ پرایمری پاس کے چرنوں میں ڈال کر خوار ہوئے۔ یہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کی بجائے اپنی تعلیم، قابلیت، اہلیت اور میرٹ پر یقین رکھیں۔ اپنی خوداری، عزتِ نفس اور وقار کسی صورت مجروح نہ ہونے دیں۔ جو اسمبلی ایم ایل اے کے لیے پرایمری اور چپڑاسی کے لیے میٹرک پاس ضروری قرار دے…… وہاں کسی اچھائی کی کیا امید کی جاسکتی ہے؟
دردِ دل رکھنے والے احباب ’’کشمیر متحدہ اپوزیشن محاذ‘‘ بنا کر اپنے حقوق کی جد و جہد کا آغاز کریں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔