اَن مول نعمت

خالقِ کاینات، مالکِ ارض و سما…… اللہ ربّ العزت کا امتِ مسلمہ پر احسانِ عظیم ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا…… مسلم گھرانے میں اور مسلمان پیدا فرمایا۔ اگر اللہ پاک ہمیں کسی حیوان یا درندے کے روپ میں پیدا فرما دیتے، تو ہمارا کیا ہوتا……! اور اگر ہمیں کسی غیر مسلم کے گھرمیں پیدا فرمادیتے، تو ہمارا کیا بنتا…… اور اُس صورتِ حال میں ہم ایمان لانا بھی چاہتے، تو ہمیں کتنی جد و جہد کرنا پڑتی! مختلف مذاہب کی ریسرچ کے لیے ہر مذہب کی کتابوں کی چھان بین کرنا پڑتی، جو کہ ایک انتہائی مشکل کام تھا۔ کیوں کہ ہر مذہب ہمیں اپنی جانب کھینچتا اور شاید ہم دینِ حق اسلام کی روشن تعلیمات سے محروم رہ جاتے۔
بلاشبہ اللہ تعالا کی تمام نعمتوں میں سب سے قیمتی دولت ایمان کی دولت ہے، جوکہ اللہ تعالا نے ہمیں بغیر کسی جد و جہد کے میسر فرمائی ہے۔ اس عظیم نعمت پر اللہ تعالا کا جتنا بھی شکر کیا جائے…… کم ہے۔
اس کے علاوہ حق تعالا شانہ نے ہمیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا جن کے شمار سے ہماری حقیر عقل مکمل طور پر قاصر ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں نعمت تو ہیں ہی…… لیکن کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ بھوک اور پیاس بھی نعمتِ خداوندی ہیں۔ اگر بھوک اور پیاس نہ ہو، تو دنیا کی بہترین سے بہترین کھانے پینے کی چیزیں اپنی اہمیت کھو بیٹھیں اور اعلا سے اعلا انواع و اقسام کی چیزیں مٹی معلوم ہوں۔ اس بات کا اندازہ ہم کو دورانِ روزہ بخوبی ہوتا ہے کہ تمام دن بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرنے کے بعد جب ہم روزہ کھولنے کے لیے بیٹھتے ہیں، تو ایک کھجور اور ایک گھونٹ پانی نوش کرتے ہی خدائے تعالا کا شکر بجالاتے ہیں…… جب کہ عام دنوں میں ہم شکم سیر ہوکر بھی کھانے میں طرح طرح کے نقص نکالتے ہیں۔ خاص طورپر تقاریب میں تو یہ بات زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے پیتے ہیں، اس کا اخراج بھی نعمتِ عظیم ہے۔ اگر اللہ تعالا نے اس نعمت سے نہ نوازا ہوتا، تو ہم طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے، جس کا اندازہ ہمیں نظامِ ہاضمہ خراب ہو جانے پر ہوتا ہے، یعنی چند گھڑیوں کے اندر ہی ہمیں یہ دنیا بے کار نظر آنے لگتی ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کو یہ گلہ ہے کہ ہم سے زیادہ مصیبت کا مارا اور پریشانی میں مبتلا کوئی دوسرا نہیں ہے…… جب کہ درحقیقت ہم سا دولت مند کوئی اور نہیں۔ یہ ہاتھ پاؤں، آنکھ اور ناک کسی بھی طرح لاکھوں اور کروڑوں کی دولت سے کم نہیں۔ یہ سب اللہ تعالا کی نعمتوں میں سے چند ایک ہیں…… جب کہ ان کے بغیر زندگی کا تصور ناممکن ہے۔
اگر ہم ناشکری کرنے کی بجائے اللہ تعالا کا شکر ادا کریں اور خلوصِ دل سے دعا مانگیں، تو ہمارے مصایب و آلام ضرور دُور ہو جائیں گے اور اگر ہم ناشکری ہی کرتے رہے، تو ہماری دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی۔
درحقیقت ناشکری بہت بڑی لعنت ہے۔ اس سے بنے بنائے کام بگڑ جاتے ہیں۔ یہاں واضح رہے کہ جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا…… وہ خدائے تعالا کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا۔ دراصل جو بھی نعمتیں ملتی ہیں، اس کے ذرایع تو مختلف ہوتے ہیں…… لیکن درحقیقت وہ حق تعالا کی عطا ہوتی ہیں۔
جس طرح راحت و خوش حالی اللہ تعالا کی طرف سے آتی ہیں…… اسی طرح تکلیف اور پریشانی بھی اسی کی جانب سے نازل کردہ ہیں…… جو کبھی ہمارے گناہوں کی پاداش میں نازل ہوتی ہیں اور کبھی ہماری آزمایش کے لیے۔ قرآنِ کریم میں ہمیں آزمایش اور مصیبتوں سے نجات کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔ صبر کرنے کا حکم اور دعاؤں اور نمازوں کے ذریعے اللہ تعالا کی مدد حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ حق تعالا نے اپنا یہ اصول بھی واضح طورپر بیان فرما دیا ہے کہ جب اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کروگے، تو وہ ان میں مزید اضافہ فرمائے گا۔ یوں تو اللہ تعالا کی عطا کردہ بے شمار نعمتیں ہیں…… لیکن جو سب سے بڑی نعمت ہمیں عطا ہوئی ہے…… وہ ’’ایمان‘‘ ہے۔ اس نعمت پر ہماری نظر اس لیے نہیں جاتی کہ ہم مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے ازخود یہ نعمت ہمیں حاصل ہوگئی، جس کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں۔ اس نعمت پر ہم اللہ تعالا کا جتنا بھی شکر ادا کریں…… کم ہے۔
ایمان اتنی قیمتی دولت ہے کہ اس کی جتنی بھی حفاظت کی جائے کم ہے۔ ہمیں ہر وقت اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے اللہ تعالا سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالا ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے، آمین!
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔