تبدیلی سرکار بھی کرپشن کا خاتمہ کرنے میں ناکام

معاشرتی اور قانونی نقطۂ نظر میں ’’کرپشن‘‘ کے لفظ کو انسانی عمل سے تعبیر کیا گیا ہے…… جو قانونی اصولوں اور اخلاقی اصولوں کو پار کرتا ہے۔
بدعنوانی کسی بھی تناظر میں واقع ہوسکتی ہے جس میں معاشرتی، اخلاقی، کاروباری نجی و سرکاری سطح پر انتظامی اور سیاسی بدعنوانی نمایاں ہے۔ انتظامی اور سیاسی لحاظ سے تجزیہ کیا جائے، تو زیادہ تجزیاتی معنوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بدعنوانی کا مطلب ہے کہ اس نوعیت کے طرزِ عمل سے ذاتی یا متعلقہ فواید حاصل کرنے کے لیے غیر جانب داری کے اصول کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کی جائے…… جب غیر جانب داری کے اصول کی خلاف ورزی کرنے کے بارے میں کہا جاتا ہے، تو اس میں عوامی انتظامیہ کے خلاف جرایم میں رشوت ستانی بڑا جرم ہے…… جسے ملکی آئین و قانون اور شرعی طور پر بھی بڑا جرم قرار دیا گیا ہے…… جو ٹیکس چوری کے لیے بڑی رقم کی پیش کش تک، جرمانے سے بچنے کے لیے کسی سیکورٹی آفیسر کو معمولی رقم کی فراہمی سمیت دیگر ناجایز کاموں کے لیے حتی کہ ہمارے ملک میں جایز کاموں کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ معروف رئیل اسٹیٹ ٹایکون ملک ریاض کے مطابق آپ کو جایز کام کے لیے بھی فایل کو رشوت کا پہیا لگانا پڑتا ہے۔
اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں ہر سطح پر بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ یہ ناسور ہمارے معاشرے میں خطرناک حد سرایت کرچکا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے مختلف حکومتی ادوار میں تمام سرکاری انتظامی سرکاری اداروں میں کرپشن بڑھتی ہی رہی ہے۔ اس حوالے سے بدعنوانی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ’’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘‘ نے دنیا کے 180 ممالک میں بدعنوانی کے تاثر کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کی ہے…… جس کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی تین پوائنٹس کم ہونے کے بعد 124 سے گر کر 140 تک پہنچ گئی ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان چیپٹر نے رپورٹ کے اجرا کے بعد اپنی پریس ریلیز میں بتایا کہ پاکستان میں بدعنوانی جانچنے کے لیے 8 ذرایع استعمال کیے گئے ہیں جن کا دورانیہ سال 2020ء اور 2021ء کے درمیان ہے۔ جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا سکور 31 سے گر کر 28 تک پہنچ گیا ہے۔ اس کی وجہ سے درجہ بندی میں تنزل دیکھنے میں آیا ہے جو کہ 124 سے 140 تک پہنچ گیا ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی نایب چیئرپرسن جسٹس ریٹایرڈ ناصرہ اقبال نے اس رپورٹ کے بارے میں کہا کہ قانون اور ریاست کی بالادستی کی عدم موجودگی پاکستان کے کم سکور کی وجہ بنی ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی چیئرپرسن ’’ڈیلیا فریرا روبیو‘‘ نے بھی اس رپورٹ کے بعد کہا کہ آمرانہ سوچ بدعنوانی کو روکنے کی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
منگل کے روز سال 2021ء کی رپورٹ کے اجرا کے بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے رپورٹ کے حوالے سے ٹویٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی ساکھ پر تنقید کی…… اور کہا کہ اس رپورٹ کو آپ شریف خاندان کی لکھی رپورٹ سمجھیں۔ انہوں نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستانی چیپٹر کے سربراہ عادل گیلانی کے خلاف ماضی میں کی گئی مختلف تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ یہ پڑی ہیں خبریں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو بنانے والوں کی…… جب کہ وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے بھی رپورٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر واویلا کرنا بلاجواز ہے۔ انہوں نے لکھا کہ اپوزیشن کا ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر واویلا، بلاجواز ہے۔ آٹھ میں سے سات رپورٹس میں کوئی فرق نہیں۔ صرف ایک رپورٹ کے باعث "CPI” کی ٹوٹل رینکنگ میں تنزل ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں حکومتی سطح پر کسی قسم کی مالی کرپشن کا ذکر نہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال کی رپورٹ آنے کے بعد بھی شہباز گل نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی ایک پرانی رپورٹ کے سکرین شاٹس اپنے ٹویٹر پر پوسٹ کیے تھے…… جن کے ذریعے انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ کے لیے پرانا ’’ڈیٹا‘‘ استعمال کیا تاہم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اس وقت نشریاتی ادارے بی بی سی کے سوالات پر جواب دیا تھا کہ 2020ء کی رپورٹ کی تیاری میں جو ڈیٹا استعمال کیا گیا تھا، وہ اُس وقت کا تھا جب پاکستان تحریکِ انصاف ملک میں برسرِ اقتدار تھی۔
ایک طرف حکومتی مشیر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کو لے کر اسے اپوزیشن کی رپورٹ قرار دیتے ہوئے ناقابلِ اعتبار قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں…… جب کہ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان ماضی میں اسی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کو لے کر اس وقت کی حکومتوں کے خلاف مستند چارج شیٹ مانتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور اس ادارے کی رپورٹس کی مثال دیتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ پاکستان میں صرف کرپشن کے ریکارڈ قایم کیے جاتے ہیں اور حکومتی اداروں کی کرپشن کی سزا غریب عوام مہنگائی کی شکل میں برداشت کرتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کا اقتدار میں آنے سے پہلے ایک بڑا دعوا اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ مافیا کو نشان عبرت بنانا رہا ہے۔ اس بیانیے کو لے کر موجودہ حکومت کے ماتحت اداروں نے اپوزیشن جماعتوں کے خلاف اقتدار میں آنے کے ابتدائی دنوں سے جاری رکھا ہوا ہے…… جس کے دوران میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیرِ اعلا پنجاب شہباز شریف سمیت اپوزیشن کے کئی اہم رہنماؤں کو پابندِ سلاسل رکھا…… لیکن مبینہ طور پر کی گئی کرپشن متعلقہ فورم پر ثابت نہیں کرسکی اور کرپشن کے خاتمے کی دعوے دار موجودہ حکومت کے دورِ اقتدار کے ساڑھے تین سالوں میں کرپشن کی صورت حال ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی عالمی رینکنگ میں منفی اسکور کی جانب گئی ہے۔
2021ء کی حالیہ رینکنگ رپورٹ کے مطابق کرپشن میں پاکستان کی 10 سالوں کے دورانیے میں سب سے زیادہ بُری رینکنگ رپورٹ ہے۔ پاکستان کے لیے گذشتہ سال کافی برا رہا ہے…… اور 2015 ء کے بعد پہلی بار پاکستان کا سکور 30 سے بھی کم ہو گیا ہے۔
قارئین، کرپشن کے خاتمے کی دعوے دار عمران خان حکومت میں کرپشن کا مسلسل بڑھنا عوام کے لیے تشویش ناک اور مایوس کن ہے۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔