اس بات میں کسی کو شک نہیں کہ سوات میں لاقانونیت کی جو انتہا ہے، اس نے کراچی کو بھی پیچھے چھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سوات اب وہ علاقہ بن گیا ہے جہاں کوئی بھی غیر قانونی کام باآسانی کیا جاسکتا ہے۔ اس پر تو کتاب لکھی جاسکتی ہے…… لیکن آج ایک ایسے عمل کا ذکر کروں گا جس نے عوام کا سکون چھین لیا ہے اور اس عمل کی بدولت پہلے سے ذہنی مریضوں کی تکلیف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
سوات کے لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جب کوئی کاروبار شروع کرتا ہے…… اور لوگ اسے کامیاب ہوتا دیکھتے ہیں، تو چند دنوں میں ہر جگہ وہی کار و بار شروع ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں آپ کو ماضیِ قریب کی ایک مثال دوں گا۔ پنجاب سے ایک صاحب سوات آئے اور انہوں نے مین بازار چوک کے قریب ’’بٹ دیگی چرغہ‘‘ کے نام سے دکان کھولی، تو ان کے ساتھ کام کرنے والے مینگورہ کے ایک شخص نے داو پیچ سیکھ کر جلد ہی قریب میں ایک اور دکان کھول لی۔ پھر کیا تھا…… دیگی چرغوں کی دکانیں شہر میں جگہ جگہ کھلنے لگیں۔
کچھ عرصہ پہلے ایک دوست کے ساتھ بازار جا رہا تھا کہ نشاط چوک میں ’’چکن شوارما‘‘ کی ایک مشین دیکھی۔ مَیں نے ساتھ والے دوست کو کہا کہ اب کچھ عرصہ بعد شوارما کی مشینیں سوات میں جا بہ جا ہوں گی۔ وہی ہوا…… اب تو خیر سے ہر محلہ کی کسی نہ کسی گلی میں شوارما کی مشین دیکھنے کو ملتی ہے۔
اسی طرح چند ماہ پہلے ’’کوئٹہ چائے‘‘ کا ایک ہو ٹل مینگورہ میں کھولا گیا۔ اب (ماشاء اللہ) درجن بھر اسی نام سے ہوٹل دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس طرح ایک صاحب نے ایک نان کسٹم پیڈ وین خریدی۔ اس میں ایک اسٹریچر نما بستر لگا دیا۔ وین کے اوپر ’’ریوالونگ لایٹ‘‘ لگا دی اور ایک سماعت خراش سایرن اس کے اوپر لگا دیا…… جس کے بعد درجنوں کی تعداد میں لوگوں نے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں خریدیں۔ ان ایمبولینس نما گاڑیوں کے اوپر لگنے والے ’’ریوالونگ لایٹس‘‘ (جو بازار میں کوئی بھی خرید سکتا ہے) لگائی اور سماعت خراش ہارن لگا دیے۔ یہ بھی بازار میں ہر کوئی خرید سکتا ہے۔ اب یہ تمام ایمبولینس گاڑیاں سیدو شریف اور سنٹرل ہسپتال کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں اور ہسپتال سے جب کسی مریض کو چھٹی کیا جاتا ہے، تو یہ مریض کے لواحقین سے منھ مانگے دام وصول کرکے ان کو گھر پہنچاتے ہیں۔
جب مریض ایمبولینس میں لیٹ جاتا ہے، تو ڈرائیور صاحب ریوالونگ لایٹ لگا کر، سماعت خراش ہارن لگا کرہسپتال سے روانہ ہو جاتا ہے۔ مریض کو گھر پہنچانے اور واپس آتے وقت یہ اونچی آوازیں ناک میں دم کر دیتی ہیں۔ جب کسی مریض کو ہسپتال سے چھٹی کرایا جاتا ہے، تو گھر والے اس کو آرام سے اپنی گاڑی میں بٹھا یا لٹا کر آرام سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے اسے گھر پہنچاتے ہیں، تاکہ جس مریض کو اللہ نے صحت یاب کیا ہے…… اس کو بحفاظت گھر پہنچایا جاسکے…… لیکن نجی ایمبولینس والوں کو مریض سے کیا دشمنی ہوتی ہے کہ وہ اس کو جلد گھر پہنچانے کی کوشش میں پورے ماحول کے سکون کا ستیاناس کردیتا ہے۔ مریض کی تکلیف ایک طرف، راہ چلتے عوام الناس کو ان سماعت خراش آوازوں سے جو تکلیف ہوتی ہے، وہ عوام ہی جانیں۔ یہ ایمبولینس ڈرائیور صاحبان تو کسی حادثہ کی صورت میں مجروح کو ’’ایدھی‘‘ یا ’’1122‘‘ کی طرح بلامعاوضہ ہسپتال نہیں پہنچاتے…… یہ صرف کرایہ کے عوض دوڑتے پھرتے ہیں، تو ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ حقیقی ایمبولینس کی طرح لایٹ اور لاؤڈ اسپیکر نما ہارن لگائیں۔ مینگورہ شہر اور سوات کے تمام علاقوں میں دن رات ان گاڑیوں کے لاؤڈ اسپیکر نما ہارنوں کی وجہ سے لوگوں کو ذہنی خلجان کا سامنا ہے۔
سوات میں شورش کے دوران میں جب یہ آوازیں شروع ہوجاتیں، تو لوگ سمجھتے کہ کوئی دھماکا ہوگیا ہے۔ اُن حالات کی وجہ سے لوگ پہلے سے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ اب یہ نجی ایمبولینس والے ہمیں مزید ذہنی امراض میں مبتلا کررہے ہیں۔
اس بارے میں، مَیں نے ڈی ایچ او سوات سے رابطہ کرکے پوچھا کہ نجی ایمبولینس کی رجسٹریشن یا استعمال کا کوئی قانون ہے؟ تو انہوں نے جواباً کہا کہ نہیں……!
اب آتے ہیں پولیس کی جانب……! کیا یہ پولیس کی ذمے داری نہیں بنتی کہ وہ ان نجی ایمبولینسوں رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرے؟ یہ کس ایمرجنسی کے تحت ’’ریوالونگ لایٹ‘‘ اور ’’لاؤڈ اسپیکر نما ہارن‘‘ لگا کر لوگوں کو پریشان کر رہے ہیں؟ اور تو اور جب شام کو مذکورہ نجی ایمبولینس والے گھر جاتے ہیں، تو اس وقت بھی ’’ریوالونگ لایٹ‘‘ اور ’’لاؤڈ اسپیکر نما ہارن‘‘ لگا کر لوگوں کے آرام میں خلل ڈالتے ہیں۔ اب ہمارے معاشرے میں کم ہی سہی…… لیکن ایسے کچھ لوگ ہیں جو ایمبولینس میں لگے ان ’’لاؤڈ اسپیکر نما ہارنوں‘‘ کو سن کر ایمبولینس کو راستہ دیتے ہیں، لیکن حقیقت جان کر اب وہ لوگ بھی حقیقی مریضوں کو ہسپتال پہنچانے والی ایمبولینس گاڑیوں کو راستہ نہیں دیں گے۔
اس سلسلے میں ہر قسم کے قانون سے مبرا ’’ملاکنڈ ڈویژن‘‘ کے کمشنر، ریجنل پولیس آفیسر، ڈپٹی کمشنر، ڈی پی اُو اور ایس پی ٹریفک سے درخواست ہے کہ یہ نجی ایمبولینس والے باقاعدہ طور پر کار و بار کرتے ہیں۔ ان سے ’’ریوالونگ لایٹ‘‘، ’’لاؤڈ اسپیکر نما ہارن‘‘ ہٹا دیے جائیں۔ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، تاکہ اہلِ سوات کو مزید اذیت اور ذہنی امراض سے بچایا جاسکے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔