مینگورہ، ایک شہر بے مثال (تیسری قسط)

پہلی دو اقساط میں اس طرف دھیان ہی نہیں گیا کہ اس شہرِ بے مثال کی وجۂ تسمیہ کیا ہے…… یا اسے پرانے زمانے میں کس نام سے پکارا جاتا تھا؟
ڈاکٹر سلطانِ روم صاحب نے آکسفورڈ پبلشرز کی شایع کی گئی اپنی انگریزی زبان کی کتاب "Swat Through the Millennia” کے صفحہ نمبر 7 تا 9 یہ گتھی سلجھانے کی سعی فرمائی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق ایک جگہ یہ نام "Meng chie li” یا "Meng-chi-li”(مِنگ چِلی) جب کہ دوسری جگہ "Mungali” یا "Mung-kie-li” (مُنگالی یا مُنگ کئیلی) درج ملتا ہے۔ اب اس پر اختلاف ہے…… کچھ لوگ مانتے ہیں کہ یہ ’’مینگورہ‘‘ کے پرانے نام ہیں جب کہ کچھ اسے منگلور کے پرانے نام مانتے ہیں۔ جیسا کہ اٹلی کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا ماننا ہے کہ’’مِنگ چِلی‘‘ اور ’’مُنگالی‘‘ دونوں ’’مینگورہ‘‘ کے پرانے نام ہیں۔ اس طرح ’’ہیون سانگ‘‘ (Hiuen Tsiang) کے بیان کردہ ’’مِنگ چِلی‘‘ اور ’’مُنگالی‘‘ کے ذکر کے بارے میں ’’سر اُورل سٹائن‘‘ کا ماننا ہے کہ یہ ’’منگلور‘‘ کے پرانے نام ہیں۔
صفحہ نمبر 9 پر آخری چند سطور میں ڈاکٹر صاحب یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’مِنگ چِلی‘‘ اور ’’مُنگالی‘‘ دونوں مینگورہ کے پرانے نام ہیں نہ کہ منگلور کے۔
جتنا مجھے یاد پڑتا ہے۔ نشاط چوک ایک طرح سے مینگورہ شہر کا دل تھا۔ بائی پاس جسے مقامی میڈیا ’’فوڈ سٹریٹ‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے، کے قیام سے پہلے نشاط چوک ایک طرح سے مینگورہ شہر کی ’’فوڈ سٹریٹ‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ یہاں سے سیدو شریف کے لیے رکشے کی سواری باآسانی مل جایا کرتی تھی۔ رکشوں کے اڈے کے سامنے قایم ایک اور اڈے میں میاں بابا، کُکڑئی، شگئی، سیرئی، سلام پور اور مرغزار کے لیے بھی سواری مل جایا کرتی تھی۔ اسی چوک میں ’’زمین دار کیفی‘‘، ’’نشاط کیفی‘‘، ’’دلشاد کیفی اور سرائے‘‘، ’’منجور ہوٹل‘‘، ’’پنجاب‘‘ اور ’’کشمیر‘‘ کے نام سے دو بیکریاں،’’مُنّا کیبن‘‘، ’’حاجی محمد عرفِ بزوگر روئی والے (میرے دادا مرحوم)‘‘، ’’مجید رنگی‘‘، ’’ملوک تکو والا‘‘، ’’تمر میڈیکوز‘‘، ’’منظور نیوز ایجنسی‘‘ (بقولِ شہاب الدین بیورو چیف سما نیوز)، ’’مراد آرٹسٹ‘‘، ’’اقبال ٹیلرز‘‘، ’’کرشمہ ہیر ڈریسر‘‘، ’’محمد زمان ہیر ڈریسر‘‘، ’’ایم سلیم جان مہرونو والا‘‘، ’’امجد بک باینڈنگ‘‘، ’’ہمدرد دواخانہ‘‘، ’’سوات کیپ ہاؤس‘‘، ’’رمضان آپٹکوز‘‘ اور ’’قذافی چپلی کباب سنٹر‘‘ کی دکانیں تھیں۔

نشاط چوک کی تازہ ترین تصویر جس میں رکشوں کی بھرمار واضح ہے۔ (فوٹو: کامریڈ امجد علی سحابؔ)

نشاط چوک کی وجۂ تسمیہ کے حوالے سے محترم فضل رازق شہابؔ صاحب اپنے ایک مضمون ’’مینگورہ کے چوکوں کے نام کیسے پڑے؟‘‘ میں رقم کرتے ہیں:’’نشاط چوک جو اکثر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا ہے، ’’نشاط کیفے‘‘ کی مناسبت سے مشہور ہوا۔ ہمارے طالبِ علمی کے دور میں یہ یہاں کا مشہور کیفے تھا، جس میں مرحوم شیر زادہ حاجی صاحب کے ایک بھتیجے عثمان منیجر تھے۔ اس کیفے میں ہم نے پہلی بار خودکار ’’ریڈیو گرام‘‘ (Radiogram) دیکھا، جس پر کئی ریکارڈر بیک وقت رکھے جاتے اور وہ باری باری بجتے جاتے تھے۔ لڑکے یہ ریکارڈرز سننے کے لیے آتے اور کیفے کا کاروبار چلتا رہتا۔‘‘
شمشیر علی اُستاد (جن کا ذکر تحریر کے آخر میں آئے گا) کے بقول: ’’مجھے یاد ہے کہ میاگانو چم/ محلہ (مینگورہ) کی معروف شخصیت میاں سید جلال پاچا کے گھوڑے (ایک گھوڑا، ایک گھوڑی) عصر کے وقت جیسے ہی ’’نشاط کیفی‘‘ کے سامنے سے گزرتے، تو جھوم اُٹھتے۔ گھوڑوں کا رقص دیکھنے لایق ہوتا۔ میاں سید جلال پاچا (مرحوم) نے گھوڑی کا نام ’’زیبا‘‘ اور گھوڑے کا ’’جیو ٹیڈی‘‘ رکھا تھا۔ مجھے وہ گانا بھی یاد ہے جس پر ایک روز گھوڑوں کو رقص کرتے دیکھا تھا:
بیا دانہ وانہ دی راشہ گورہ پہ رخسار زما
زلفی تار پہ تار زما‘‘
باچا خان حاجی صاحب کی ’’خان مارکیٹ‘‘ وہ جگہ ہے جس کے ساتھ میری بچپن اور لڑکپن کی یادیں وابستہ ہیں۔ اسی مارکیٹ میں ’’مراد آرٹسٹ‘‘ کی چھوٹی سی دُکان میں روزانہ دو تین گھنٹے باآسانی گزر جایا کرتے۔ مراد جنہیں ہم احتراماً ’’دادا‘‘ کے نام سے پکارا کرتے، کا اصل نام فضل مولا تھا۔ مراد کے برادرِ خورد رفیع اللہ میرے بچپن کے دوست ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب مراد مجھے ’’بچو‘‘ کَہ کر پکارتے، تو مجھے اُن کی شخصیت میں والد کی جھلک دکھائی دیتی۔

خان مارکیٹ کی تازہ ترین تصویر جس میں ’’اقبال ٹیلرز‘‘ کا ساین بورڈ نمایاں ہے۔ (تصویر: کامریڈ امجد علی سحابؔ)

مراد آرٹسٹ کی بظاہر چھوٹی سی دِکھنے والی دُکان کسی بڑی اکیڈمی سے کم نہ تھی۔ مارکیٹ کی کھلی چھت پر مراد اپنے آدھے درجن شاگردوں رفیع اللہ، بابو، بانڈئی وغیرہ کے ساتھ آیل پینٹ کی مدد سے مختلف بورڈز لکھتے جاتے اور ساتھ علمی و ادبی بحث بھی جاری رہتی۔ اول اول شعرا و ادبا سے میری جان پہچان مراد آرٹسٹ کی دکان ہی میں ہوئی۔ اُن دنوں مراد شعرا و ادبا کی کتب کے ٹایٹل ڈیزاین کیا کرتے۔ برسبیلِ تذکرہ ایک مرتبہ عطاء اللہ جانؔ صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’سحابؔ میں تمھیں اُس دور سے جانتا ہوں، جب تم ’’ازغےؔ‘‘ تخلص کرتے تھے۔‘‘ میرے ذہن میں اک کوندا سا لپکا اور 95، 96ء کا دور ذہن کے پردے پر کسی فلمی ٹریلر کی طرح چلنے لگا۔ جانؔ صاحب نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’اول اول مَیں نے تمھیں مرادؔ آرٹسٹ کی دکان پر جہازی سایز کی ڈایری بغل میں دابے چہکتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘

مراد آرٹسٹ کی تصویر۔ (تصویر مراد آرٹسٹ کے سوشل میڈیائی صفحہ سے لی گئی ہے)

مَیں چھٹی جماعت میں تھا کہ ہائی سکول نمبر 3 شاہدرہ وتکے میں بخت روان حسرتؔ (طالبِ علم)، ظفر علی شبابؔ استاد صاحب اور گل رحمان ساغرؔ استاد صاحب اکثر اسمبلی میں اپنا کلام مترنم انداز میں سنایا کرتے۔ انھیں سنتے سنتے ہم میں بھی چھٹی، ساتویں جماعت (غالباً 93، 94ء) میں شعر موزوں کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ اولین مسئلہ کسی اچھے سے تخلص کا تھا اور تخلص بھی ایسا جو کسی اور کا نہ ہو۔ ہمارے ساتھ کلاس ہی میں ایک جاوید اقبال نامی لڑکا ہوا کرتا تھاجس کا چہرہ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ لمبا قد، گول سا چہرہ، سانولی رنگت اور بائیں گال پر تِل کا نشان…… یہ ساری چیزیں مل کر اُسے دیگر لڑکوں سے منفرد بناتیں۔ حسرتؔ کے دیکھا دیکھی اُس نے اپنا تخلص ’’ناساپہؔ‘‘ رکھ لیا، ’’جاوید اقبال ناساپہؔ‘‘۔ اچھی خاصی دماغ سوزی کے بعد میرا تخلص ’’ازغےؔ‘‘ رکھ لیا گیا۔ اس عزم کے ساتھ کہ ’’ہم عصرِ حاضر کے تمام شاعروں کو اپنے افکار کی چبھن محسوس ضرور کرائیں گے۔‘‘ مجھے آج بھی یاد ہے جب زندگی کے پہلے شعر پر مجھے فیروز شاہ استاد صاحب کی طرف سے داد کی جگہ ایک زناٹے دار تھپڑ ملا تھا۔ شعر ملاحظہ ہو:

زہ گل نہ یم ازغےؔ یم
زہ دَ خپل نیکہ نمسے یم
یہ مَیں بہک کر کہاں نکل گیا……! مراد آرٹسٹ کے بالکل سامنے ’’اقبال ٹیلرز‘‘ کے نام سے شمشیر علی اُستاد کی درزی کی دکان تھی۔ بچپن میں ان کے ساتھ ایک دلخراش واقعہ پیش آیا۔ ایک بھرے پرے ٹرک کا ٹایر (Tyre) ان کے پیر کے اوپر آیا اور انھیں بری طرح زخمی کرگیا۔ اس حادثے میں پاؤں کٹنے سے تو بچ گیا، مگر ان کی چال میں اچھا خاصا فرق ضرور آگیا۔ چلتے وقت اب بھی ان کے پاؤں کی چال میں بھاری پن محسوس ہوتا ہے۔ اُستاد کہتے ہیں: ’’یہ سنہ 71ء کا واقعہ تھا۔‘‘

اقبال ٹیلرز کے مالک زندہ دل شمشیر علی استاد کی تصویر۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

شمشیر اُستاد اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ خدا سلامت رکھے، ساٹھ باسٹھ کے پیٹے میں ہیں…… مگر آج بھی پینتیس چالیس سالہ جوانوں سے زیادہ ’’ایکٹیو‘‘ ہیں۔ مَیں یہ ماننے میں بالکل بخل سے کام نہیں لوں گا کہ مجھ میں ظرافت کا مادہ شمشیر اُستاد نے پیدا کیا۔ ہم جب بھی کبھی اُداس ہوتے، شمشیر استاد کے پاس چلے جاتے۔ ان کی رگِ ظرافت پھڑکتے دیر نہیں لگتی تھی۔ جوانی میں بلا کے حاضر دماغ و حاضر جواب تھے۔ جب گاہک کپڑے سلوانے ان کے پاس آجاتا۔ گاہک کا ناپ لیتے وقت شمشیر استاد ذومعنی جملے ادا کرتے، جس سے دکان میں بیٹھنے والوں کی ہنسی چھوٹ جاتی۔ گاہک بھی تھوڑی فکر کے بعد ہنس کے کہتا: ’’اُستاد! تو بھی ناں……!‘‘
مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دن شمشیر استاد ایک چھبیس ستائیس سالہ جوان کے کپڑوں کا ناپ لے رہے تھے۔ جیسے ہی پائنچہ ناپنا شروع کیا، تو بولے: ’’جوان! کتنے انچ کا کافی ہے؟‘‘ جوان بولے: ’’سات انچ!‘‘ شمشیر استاد ذو معنی جملہ ادا کرتے ہوئے سوال کر بیٹھے: ’’معاف کیجیے گا…… یہ آپ کے لیے کچھ زیادہ لمبا نہیں ہے؟‘‘ ہم چوں کہ استاد کے سٹایل سے واقف تھے، اس لیے ہماری ہنسی چھوٹ گئی۔ جوان اولاً شرما گیا اور ثانیاً دھیمی سی آواز کے ساتھ بولا: ’’یہ آپ کیا فرما رہے ہیں!‘‘ استاد جو پائنچہ ناپ رہا تھا، بلا توقف بولا: ’’پائنچہ…… اور کیا؟‘‘ جوان کا چہرہ شرم سے ٹماٹر کی طرح لال ہوگیا اور بولا: ’’چلیے، آپ کو لمبا دِکھ رہا ہے، تو چھے انچ کرلیں۔‘‘ اُستاد نے ناپ لیا، تو جوان کسی کم سن لڑکی کی طرح شرماتے ہوئے جیسے ہی واپس جانے کے لیے مڑا، تو دروازہ کھولنا بھول گیا اور اس کا سر شیشے کے فریم کے ساتھ زور سے ٹکرا گیا۔ اُسے چکر آنے لگے…… لیکن ہم نے اُسے بروقت قابو کرکے بنچ پر بٹھا لیا۔ پانی پلا کر جیسے ہی دو تین منٹ بعد اس کے ہوش ٹھکانے آئے، تو اجازت لے کر روانہ ہوا۔ جوان کے رخصت ہوتے ہی استاد نے روئے سخن ہماری طرف پھیرتے ہوئے کہا: ’’لڑکوں چھے انچ بھی لمبا ہی ہے!‘‘ ہم جو ابھی تک جوان کے ساتھ رونما ہونے والے واقعے کی وجہ سے سہمے ہوئے بیٹھے تھے، دوبارہ کھکھلا کر ہنسنے لگے۔ استاد نے ٹوکتے ہوئے کہا: ’’ابے شیطان کے چیلو! میں پائنچے کی بات کر رہا ہوں!‘‘
(جاری ہے)
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔