دہائیوں پر محیط مسئلہ کشمیر علاقائی امن، باہمی تجارت، ہم آہنگی، جمہوریت کی پائیداری، استحکام اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن کے بغیر عالمی امن قایم کرنا دنیا کو بند گلی میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اکیسویں صدی نے زندگی کے ہر میدان میں روایتی طریقوں کو پسِ پشت ڈال کر انہیں جدید خطوط پر استوار کیا۔ لہٰذایہ وقت کی عین ضرورت ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کو بھی عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالتے ہوئے تحریکِ آزادی کشمیر کی حیاتِ نو کا فریضہ سر انجام دیں۔ محکوم و مظلوم کشمیریوں کی آواز کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عالمی سطح پر اٹھانے کے لیے ہمیں روایتی طریقوں کی بجائے غیرروایتی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے حصے کا کام سر انجام دینا ہوگا۔
اگر ہم نے اپنی سات دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط روایتی روش نہ بدلی، تو ہم تحریکِ آزادیِ کشمیر کو شدید نقصان پہنچانے کے مرتکب ہوں گے۔ دنیاوی بدلاو کے ساتھ ساتھ نظریات و تفکرات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی آواز کو عالمی دنیا تک موثر انداز میں پہنچائیں۔
یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ ہم ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو عصری تقاضوں کے مطابق جدید سمت کی طرف موڑیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونے کے ساتھ ساتھ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کشمیر پر موجود زیادہ تر مواد بھارتی ورژن پر مشتمل ہے۔ ہمیں جذباتیت بھنور سے نکل کربھارتی پروپیگنڈا کا ہر رسمی اور غیر رسمی پلیٹ فارم پرمنھ توڑ جواب دینا ہوگا۔
بھارت مسئلہ کشمیر کو خراب کرنے کے لیے متعدد ویب سائیٹس اور پورٹلز چلا رہا ہے، جہاں سے غیر محسوس انداز میں نسلِ نو کے اذہان کو خراب کرنے کی مذموم کوشش میں برسرِپیکار ہے۔ ہمیں یہ تلخ سچائی تسلیم کرنا ہو گی کہ ہم اس ضمن میں بھارت سے کہیں پیچھے ہیں۔ ہم نے کشمیر کے حوالے سے بھارت کے لیے کھلا میدان چھوڑ دیا ہے۔ ’’کشمیر لبریشن سیل‘‘ جس کا قیام 1987ء میں عمل میں لایا گیا اور یہ ملک بھر میں مختلف مراکز کی موجودگی کے باوجود سیاست زدہ ہے۔ اسے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کی بجائے سیاسی بھرتیوں اور سیاسی رشوت ستانی کے ساتھ ساتھ مل کر عوامی ٹیکسوں کے پیسے سے نوازشات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ’’کشمیر لبریشن سیل‘‘ کے تمام مراکز سیاسی نوازشات، اقربا پروری، من پسند افراد کو نوازنے اور افسران کی چاپلوسی اور خوشامدکے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان مراکز کے قیام سے لے کر اب تک کسی نے اس ادارے کا آڈٹ کرنے کا حکم صادر نہیں کیا۔ یوں شترِ بے مہار یہ ادارہ سال میں 22 رسمی پروگرامات کے علاوہ عوامی ٹیکسوں کا پیسا ہڑپ کرنے کا موجب بن چکا ہے۔ پروگرامات کے نام پر پیٹ پوجا اور چند اخباری تراشوں کے علاوہ اس کا کام صفر ہے۔
اگر ہم واقعی تحریکِ آزادیِ کشمیر سے مخلص ہیں، تو ہمیں کشمیر کے نام پر بننے والے تمام ادارہ جات کو فی الفور غیر سیاسی بنانا ہوگا اور انہیں من پسند اور انفرادی مفادات کی بجائے کشمیری مفادات کے لیے چلانا ہوگا۔ یہ وقت کا عین تقاضا ہے کہ ہم کشمیر پر بھارتی پروپیگنڈا کا جواب دینے کے لیے خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر موثر یونٹس قائم کریں…… نہ کہ اپنے رشتہ داروں اور سیاسی ورکرز کو کشمیریوں کے ٹیکسوں پر نوازیں۔
نئی نسل تاریخِ کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے مکمل طور پر لا علم ہے۔ کیوں نہ ہو جب کسی قوم کو اس کی تاریخ سے تاریک رکھا جائے گا، تو پھر گونگے بہرے کشمیری ہی جنم لیں گے۔ کشمیر کے بہترین مفاد میں تاریخِ کشمیر کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے اور کشمیر ی زبانوں کی ترویج کے لیے انہیں بطورِ مضمون شامل کیا جائے۔ ہم ایک نیم معذور ’’شعبۂ کشمیریات‘‘ قایم کرکے اپنے ضمیر کو مطمئن نہیں کرسکتے، جہاں آٹے میں نمک کے برابر طلبہ کشمیری جذبے کی بجائے نوکری کے جذبے کے تحت داخلہ لیتے ہیں۔
دنیا تیزی کے ساتھ تحقیق کی طرف منتقل ہو رہی ہے جب کہ اس حوالے سے کشمیر پر ہمارا کام ایک سوالیہ نشان ہے۔ کشمیر پر دستیات آن لاین مواد یا تو بھارتی مصنفین کا ہے یا انہوں نے انگریز مصنفین کو معاوضہ دے کر لکھوایا ہوا ہے۔ یوں ہم نے پبلی کیشن کا میدان بھی بھارت کے لیے کھلا چھوڑ اہوا ہے۔
حکومت اور کشمیر کے نام پر بننے والے اداراوں کو چاہیے کہ وہ کشمیر پر تحقیق کرنے والے محققین اور مصنفین کے لیے مراعات اور معاوضہ جات کا اعلان کرے۔
یونیورسٹی کی سطح پر کشمیر پر تحقیقی مقالہ جات لکھنے والوں کو اضافی نمبرات دینے کا اعلان کرے۔
اس طرح جو محققین اور مصنفین کشمیر پر لکھ چکے ہیں، ان کی تصنیفات اور مقالہ جات کو جمع کرکے انہیں بین لاقومی جراید میں شایع کروانے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کیے جائیں۔
نظریاتی اختلاف سے بالاتر ہو کر کشمیر پر کام کرنے والے ہر فرد کو فوقیت اور اولیت دی جائے۔
یونیورسٹی کی سطح پر مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک مضمون شامل کیا جائے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر سے متعلق سرکاری سرپرستی میں مختلف مقابلہ جات کے، سیمینار اور پروگرامات کا تسلسل سے اہتمام کیا جائے۔
مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ساری امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے اور مسئلہ کشمیر حل ہونے تک ایشیا میں امن ممکن نہیں۔ اس لیے امن اور انصاف کا ساتھ دینے والے ہر فرد کو کشمیریوں کی آواز میں آواز ملانا ہوگی۔ پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ایک صفحہ یا ایک پروگرام مسئلہ کشمیر کے لیے مختص کرے…… اور روایتی دنوں کے علاوہ بھی مسئلہ کشمیر کی اہمیت و اِفادیت کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے۔
حکومت آزادکشمیر و پاکستان، کشمیر کی صورتِ حال پر کم از کم سہ ماہی رپورٹ شایع کرے…… جس میں بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ سرکاری سطح پر شہید، زخمی، معذور، اِغوا، جنسی درندگی کے ان گنت واقعات، غیر قانونی نظر بندی اور گم شدہ افراد کی کہانیوں کو حقایق، اعدادوشمار اور مکمل کوایف کے ساتھ شایع کرنے کا اہتمام کیا جائے، تاکہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کاپردہ فاش کیا جائے۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر اور پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کاکم از کم سالانہ تقابلی جایزہ شایع کیا جائے، تا کہ اقوامِ عالم کو کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا علم ہو۔ کشمیریوں کو عالمی سطح پر نمایندگی دی جائے۔ کشمیری سفارت کار تعینات کیے جائیں۔ تمام کھیلوں کی کشمیری ٹیمیں بنائی جائیں…… تاکہ وہ مسئلہ کشمیر کو ہر سطح پر، ہر میدان میں اجاگر کریں۔
حکومتِ پاکستان ’’کشمیری ائیر لاین‘‘ کا آغاز کرے۔ چاہے وہ وفاقی کنٹرول میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے مسئلہ کشمیر کو تقویت ملے گی۔ ششماہی بنیادی پر کشمیر سے متعلق تصاویری کہانیاں شایع کی جائیں اور تمام بڑے سرکاری اداروں میں ’’کشمیر گیلری‘‘ قایم کی جائے، تاکہ غیر ملکی مندوبین مسئلہ کشمیر کی نوعیت سے آگاہ ہوں۔
کشمیر کے تاریخی واقعات اور شخصیات پر ٹکٹ جاری کیے جائیں۔ سب سے اہم نقطہ کشمیری قوم کونظریاتی تصادم سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اس کا واحد حل مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے یر اتفاق میں مضمر ہے۔ الحاق پاکستان یا خودمختاریت دونوں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں میں ان کا کہیں بھی تذکرہ نہیں۔ کشمیریوں کو الحاقیت یا مختاریت کے نظریاتی تصادم سے بچانے کے لیے مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اجاگر کیا جائے۔ ہم نے سب سے پہلے متحد ہو کر آزادی کشمیر کے لیے جدوجہد کرنی ہے، جب کشمیر آزاد ہو جائے گا، تو یہ کشمیریوں کا حق ہے۔ وہ فیصلہ کریں گے کہ وہ الحاق چاہتے یا خودمختاری؟ ہمیں مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی دکھانا ہوگی اور مسلم امہ کو ایک پیج پر لاتے ہوئے مسلم ممالک کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ اگر ہم افغانستان پر اُو آئی سی کا اجلاس کروا سکتے ہیں، تو مسئلہ کشمیر پر کیوں نہیں کرواتے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔