تشتری

’’تشتری‘‘ (فارسی، اسمِ مونث) کا املا عام طور پر ’’طشتری‘‘ لکھا جاتا ہے۔
فرہنگِ آصفیہ، نوراللغات، جدید اُردو لغت اور علمی اُردو لغت (متوسط) میں املا ’’تشتری‘‘ درج ہے نہ کہ ’’طشتری‘‘ جب کہ اس کے معنی ’’چھوٹی رکابی‘‘ اور ’’تالی‘‘ کے ہیں۔
علمی اُردو لغت (متوسط) میں باقاعدہ طور پر یہ صراحت موجود ہے: ’’تشت کی تصغیر۔‘‘
’’تشت‘‘ کے معنی ’’لگن‘‘ اور ’’تانبے کا بڑا برتن‘‘ کے ہیں۔
رشید حسن خان نے اپنی کتاب ’’اُردو املا‘‘ کے صفحہ نمبر 125 پر اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے رقم کیا ہے: ’’آصفیہ میں تشت کے ذیل میں یہ صراحت ملتی ہے کہ ’’طشت اسی (تشت) کا معرب ہے۔‘‘ مذکورہ کتاب اور صفحہ پر اگلے پیراگراف میں رشید حسن خان ایک اور حوالہ یوں رقم کرتے ہیں: ’’صدیقی صاحب کی بھی یہی رائے تھی کہ تشت، تپیدن جیسے لفظوں کو ’’ت‘‘ سے لکھنا چاہیے۔ ‘‘
واضح رہے کہ ’’ط‘‘ سے شروع ہونے والے الفاظ عربی الاصل ہوا کرتے ہیں۔ جیسے اوپر رشید حسن خان ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لفظ ’’طشت‘‘ کو معرب مانتے ہیں۔
اس حوالہ سے پروین شاکر کی اِک مشہور غزل کا مقطع ملاحظہ ہو:
تصویر جب نئی ہے نیا کینوس بھی ہے
پھر تشتری میں رنگ پرانے نہ گھولیے