مسلم لیگ (ن)، اِک جائزہ

میرے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ مَیں اپنی تحریروں میں بشمول پی ٹی آئی، پی پی پی، جماعت اسلامی سمیت تقریباً ہر جماعت بارے رائے دیتا ہوں۔ حتی کہ پاک سر زمین، ایف ڈی ایف، لبیک جیسی نئی جماعتوں اور علاقائی جماعتوں تک بارے بھی…… لیکن ن لیگ پر کبھی تحریر نہیں لکھی۔
تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ اول تو یہ بات اصل میں غلط ہے۔ مَیں سوشل میڈیا پر اکثر ان پر دیانت دارانہ رائے دیتا ہوں۔ جب چند ماہ قبل محترم نواز شریف اور مریم نواز نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کیا تھا، تو مَیں نے ان کی اتنی زیادہ حمایت کی تھی کہ مجھے پی ٹی آئی اور پی پی پی کے دوستوں نے یہ مشورہ دینا شروع کر دیا تھا کہ اب مجھے باقاعدہ ن لیگ میں شامل ہو جانا چاہیے…… لیکن یہ حقیقت ہے کہ میرے خیال سے گو کہ ہر شخص کو مجھ کو اختلاف کا حق ہے، ن لیگ سے کسی بہتری یا بدلاؤ کی توقع کرنا خود فریبی ہی ہے۔ جب ہم نے ن لیگ کی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ مہم کی حمایت کی تھی…… تب بھی بہت سے دوستوں کا یہ خیال تھا کہ ن لیگ انقلابی سیاست نہیں کر رہی بلکہ انتظامی سیاست کر رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح مرحومہ بیگم کلثوم نواز شریف مشرف دور میں آئین بحالی کی خاطر نکلی تھی، تو ایک دن اچانک جب ن لیگ کے کارکنان ’’آئین بحال کرو‘‘ کے نعرے لگا کر سوئے اور صبح اس تیاری میں تھے کہ اب آمر کے خلاف کیسے میدان سجانا ہے! تو ان کو معلوم ہوا کہ قائدِ محترم میاں محمد نواز شریف مع اہل و عیال اور نوکر چاکروں کے شاہ عبدﷲ کے خصوصی طیارے میں لبنانی وزیراعظم کے بیٹے سعد الحریری کے ساتھ جدہ کے سرو محل پہنچ چکے ہیں۔
اب دوبارہ وہی ہوا…… جب عوامی دباؤ بڑھا، ن لیگ کے متوالوں کا خون جوش مارنے لگا، تو اچانک قائدِ محترم کے ’’پلیٹ لٹس‘‘ میں کمی بیشی ہوئی اور پھر چرخِ کہن نے دیکھا کہ نیلسن میڈیلا، امام خمینی، چی گوارہ اور ذوالفقار علی بھٹو ہونے کے دعویدار قائدِ انقلاب…… لندن کی حسین فضاؤں اور سرد ہواؤں میں کافی نوش فرما رہے ہیں۔ یوں ’’انقلاب‘‘ اسلام آباد میں مدفون ہوا اور قائدِ انقلاب برطانیہ گالف کا شغل فرمانے لگے۔
اس پر مجھے کسی کا ایک بہت خوب صورت پنجابی جملہ پڑھنے کو ملا تھا کہ ’’او پیا جے انقلاب تے اے ٹٹھی اے ووٹ دی عزت‘‘ مطلب ’’وہ پڑا ہے انقلاب اور یہاں گری ہے ووٹ کی عزت۔‘‘ بہرحال ہم نے خود فریبی کی اور ن لیگ کی ماضی کی تمام سیاست جان کر بھی دھوکا کھایا، لیکن اگر گہرائی میں جاکر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، تو ایک عام فہم انسان اور سطحی ذہن رکھنے والا سیاسیات کا طالب علم یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس میں بہرحال ن لیگ کو موردِ الزام ٹھہرانا بھی بذاتِ خود ایک حماقت ہے۔ کیوں کہ سیاست کا علم رکھنے والے لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ہر سیاسی جماعت کی تشکیل ایک نظریہ اور احساس پر ہوتی ہے۔ پاکستان کی حد تک بات کریں، تو مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کی تشکیل اس شخص نے کی تھی جو ایک آمر کا وزیر تھا…… لیکن اس نے آمر کی وزرات کو ٹھوکر ماری اور ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘ کا منشور لے کر عام آدمی کے مسائل کو بنیاد بنا کر کھڑا ہوگیا۔
اسی طرح جماعتِ اسلامی کی تشکیل قطعی طور پر اس نظریہ کی بنیاد پر تھی کہ ہم اسلام کا سیاسی نظام، حکومت میں ڈھال کر ایک کلی طور پر مذہبی حکومت تشکیل کریں گے۔ مزید ابھی کل کی بات ہے کہ عمران خان نے ’’ملک سے کرپشن کے خاتمہ‘‘ اور ’’تبدیلی‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کیا۔ اسی طرح دوسری قوم پرست جماعتیں بشمول ایم کیو ایم ایک خاص کمیونٹی کے حقوق کا منشور لے کر آئے۔
اب درجِ بالا جماعتوں یا ان کو تشکیل دینے والے خواتین و حضرات کا مذکورہ منشور یا نظریہ کتنا غلط تھا یا کتنا صحیح تھا…… ان کی نیت کتنی غلط تھی یا کتنی صحیح…… وہ کس حد تک کامیاب ہوئے یا ناکام…… یہ ایک بالکل علاحدہ بحث ہے…… لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ جماعتیں مروجہ سیاسی طریقۂ کار کے تحت بنیں…… لیکن کیا مجھے کوئی ن لیگ کا حمایتی یہ بتا سکتا ہے کہ ن لیگ کی تشکیل کس بنیاد اور احساس پر ہوئی؟ اس کا بنیادی منشور و نظریہ کیا تھا؟ تاریخی سچائی یہ ہے کہ ن لیگ کی تشکیل بنیادی طور پر ایک سیاسی گروہ کو روکنے اور کم زور کرنے کی وجہ سے کی گئی۔ اس سیاسی گروہ کی مخالفت کی وجہ کوئی نظریاتی اختلاف، کوئی حب الوطنی کا تقاضا یا کسی ملکی سلامتی کو خطرہ نہ تھا…… بلکہ بات محض اتنی سی تھی کہ اس وقت کی آمرانہ حکومت بدلتے ہوئے قومی اور خاص کر بین الاقوامی حالات میں لاوارث ہوچکی تھی۔ افغان سے روسی فوجوں کی واپسی کے فیصلے کی وجہ سے اس آمرانہ حکومت کے سر سے بین الاقوامی سامراج کا ہاتھ ہٹ رہا تھا۔ ملک کے اندر جس شخص کا تختہ پلٹ کر آمر آیا تھا اور بعد میں اس کو پھانسی چڑھا دیا تھا…… اس کی بیٹی سیاسی طور پر مضبوط تر بن چکی تھی…… اور جب وہ ایک نہتی لڑکی آئی، تو خیبر سے کراچی تک پوری قوم اس کے ٹرک کے ارد گرد جمع ہوچکی تھی۔ سو ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے چوہدریوں نے ایک متبادل انتظام بارے سوچا۔ پھر ملک بھر سے پی پی کے سیاسی مخالفین کو جمع کیا۔ نفرت اور مخالفت کا ایک دریا بہا دیا گیا اور پھر اس چوں چوں کے مربہ کو ایک سیاسی طاقت کے طور پر کھڑا کر دیا۔ یوں مذکورہ مربہ کی کوکھ سے ن لیگ نے جنم لیا۔ چوں کہ اس گروہ کا نہ تو کوئی سیاسی احساس تھا، نہ حمایت…… سو انہوں نے پولی ٹیکل مینجمنٹ یعنی سیاسی انتظام کیا۔ اس مینجمنٹ کے لیے مروجہ طریقۂ کار تو بہرحال لالچ، دھونس، دھاندلی اور بارگینگ ہی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ملک میں اور خاص کر سیاست میں کرپشن کا سونامی آیا۔ لوٹا کلچر بنا۔ عدلیہ اور سرکاری محکموں کو بالعموم اور فوج کو بالخصوص استعمال کیا گیا۔ دوسری طرف مذہبی جذباتیت کو بہت صفائی سے استعمال کیا گیا ۔ ذاتی کردار کشی کی انتہا کی گئی اور ہر قسم کی اخلاقی، شرعی یا قانونی ضابطوں کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ المختصر…… اگر میں یہ کہوں کہ باقاعدہ منظم انداز میں سیاست کو تباہ ن لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے نیچے کیا، تو غلط نہ ہوگا۔
بہرحال تمام تر تحفظات کے باجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ن لیگ اب پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی حقیقت بن چکی ہے۔ خواہ جس طرح بھی بنی۔آج اس کے ساتھ ملک بھر خصوصاً پنجاب میں ایک بڑی عوامی حمایت ہے۔ سو ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور ن لیگ…… خاص کر شریف خاندان جو اس جماعت کا قائد بھی ہے اور کراوڈ پلر بھی، سے ہم یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اب انتظامی سیاست، ’’آڈیو؍ ویڈیو والی حکمت عملی‘‘ سے نکل کر اصول کی بنیاد پر عوام کی سیاست کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ن لیگ کے کارکنان سے بھی یہ بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ اب دنیا بدل گئی ہے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اب ’’بھٹو مخالفت‘‘ یا ’’عمرانی نفرت‘‘ کوئی سیاسی معیار نہیں۔ سو وہ بھی اب بالغ نظری کا مظاہرہ کریں اور قیادت پر اندرونی طور پر دباؤ بڑھائیں کہ اب ہم نے نظریاتی سیاست کرنی ہے۔ بہت سوچ سمجھ کر ایک نظریہ دینا ہے اور پھر اس نظریہ کا تحفظ بھی کرنا ہے۔ ہم نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا ایک بہت معقول اور ملکی مفاد کا نعرہ دیا ہے…… اور اس پر اس کی روح کے مطابق (حالات کچھ بھی ہوں) پہرہ دینا ہے۔ یہ نہیں کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نام پر جب عوامی دباؤ بن جائے، تو پھر بارگینگ کے لیے اسے بطورِ ہتھیار استعمال کیا جائے۔ یہ بارگینگ بھی کسی سیاسی جماعتی مفادات کے حق میں نہیں…… بلکہ خالصتاً ایک خاص خاندان جو کہ ن لیگ کا مالک بن چکا ہے، کے ذاتی مفادات اور مبینہ کرپشن کے تحفظ واسطے ہو۔
گوکہ سیاسی جماعتوں میں ایک مکمل کلچر تبدیل کرنا…… یقینی طور پر محدود وقت میں ممکن نہیں…… لیکن اگر مکمل نیک نیتی سے اس کا آغاز کر دیا جائے، تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہوجاتا ہے۔ اور ہم بحیثیت ایک عام پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ن لیگ میں صحیح عوامی سیاست کا اجرا ہو جائے، تو یہ ن لیگ واسطے تو بیشک سود مند ہے لیکن اس سے پاکستانی سیاست اور ملک کو براہِ راست بہت فائدہ ہوگا۔ کیوں کہ جیسا اوپر عرض کیا جاچکا ہے کہ بلاشبہ اس وقت ن لیگ پاکستان کی ایک مؤثر سیاسی طاقت ہے ۔ اور اگر کسی ملک کی کوئی مؤثر عوامی حمایت شدہ سیاسی جماعت اپنے احساس میں کسی مثبت تبدیلی کا اجرا کرتی ہے، تو یہ بہت اطمینان اور خوشی کی بات ہے۔
بہرحال ہم تو بس دعا کر سکتے ہیں یا مشورہ مفت دے سکتے ہیں۔ آگے اس پر غور کرنا نہ کرنا تو ن لیگ کی قیادت اور کارکنان پر منحصر ہے۔
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔