ایمانِ کامل کے لیے توحید کا اقرار بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ توحید اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ ربّ العزت اس ساری کائنات کے واحد خالق حقیقی ہیں اور ان کا کوئی شریک، ثانی و ہمسر نہیں۔ ساری کی ساری حمد و ثنا اسی وحدہ لاشریک، کل شی قدیر کے لیے ہے۔ اللہ ربّ العزت کی ذاتِ باری تعالا واحد ویکتا ہے…… نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ جنا گیا، نہ اس کا کوئی مد مقابل ہے…… نہ نظیر، نہ تو اس کی صورت بیان کی جا سکتی ہے نہ تشبیہ، نہ کیفیت، نہ مثال، نہ تمثیل،نہ عکس۔
اللہ ربّ العزت کی ذات اور صفات میں ان کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ تعالا ہر پل ہر جگہ موجود ہیں، قدیم ہیں، واحد ہیں، قادر ہیں، علیم ہیں، خبیر ہیں، غالب ہیں، رحیم ہیں، ارادہ کرنے والے ہیں، سمیع ہیں، بزرگ و برتر ہیں، بلند و بالا ہیں، بولنے والے ہیں، دیکھنے والے ہیں، زندہ ہیں، باقی ہیں، بے نیاز ہیں، علم کے ساتھ حلم رکھتے ہیں، قدرت کے ساتھ قادرہیں۔
اللہ تعالا یکتا ہیں…… کوئی مصنوع اس کے مشابہ نہیں اور نہ کسی مخلوق کے وہ مشابہ ہیں۔ نہ وہ تصور میں آسکتے ہیں اور نہ عقل میں سما سکتے ہیں۔ اس کی کوئی سمت ہے اور نہ ہی مکان، اس پر وقت اور زمانے کا گزر نہیں۔ کوئی چیز اسے فعل پر نہیں ابھارتی۔ کوئی مدد اس کی امداد کو نہیں آتی۔ کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔ کوئی پیداوارِ فطرت اس کے حکم سے باہر نہیں۔ اس کے علم سے کوئی چیز غائب نہیں۔ وہ جیسا چاہے کرے، اس کے فعل پر ملامت نہیں۔اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ کہاں ہے، کس جگہ ہے، کیسا ہے؟ اس کے وجود کی ابتدا کے بارے بھی نہیں پوچھا جا سکتا کہ وہ کب ہوا؟ اس کی بقا کی کوئی انتہانہیں کہ کہا جائے کہ اس نے اپنی مدت پوری کرلی۔ اس نے جو کچھ کہا، اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے ایسا کیوں کہا؟ کیوں کہ اس کے افعال علت سے مبرا ہیں۔ اس کی کوئی جنس نہیں۔ وہ دیکھا جا سکتا ہے…… لیکن کسی مقابلہ سے نہیں۔ وہ دوسروں کو دیکھتا ہے…… لیکن آنکھ ملا کر نہیں۔ اس کے اچھے نام اور بلند و بالا صفات ہیں۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ بندے اس کے حکم کے سامنے عاجزی کرتے ہیں۔ اس کی حکومت کے اندر وہی ہو سکتا ہے، جو وہ چاہے اور اس کے اندر وہی امور متحقق ہو سکتے ہیں، جو تقدیر میں اس نے لکھے ہیں۔ وہ بندے کے تمام افعال کا خالق ہے۔ کائنات میں جو کچھ امور آتے رہتے ہیں، سب کا خالق وہی ہے۔ اسی نے قوموں کی طرف رسولوں کو بھیجا ہے۔ اسی نے ہمارے پیارے نبی سر کارِ دو عالمؐ کو آخری رسول بنا کر بھیجا ہے اور اب رسالت و نبوت کا باب ختم ہو چکا ہے۔
حضرت علیؓ سے نبی کریمؐ کا ارشاد منقول ہے کہ اللہ تعالا فرماتے ہیں: مَیں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، جس نے میری توحید کا اقرار کیا، وہ میرے قلعے میں داخل ہوا اور جو میرے قلعے میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہا۔(مشکوٰۃ شریف)
حضرت عبادہ بن صامتؓسے روایت ہے کہ مَیں نے رسولؐ اللہ کو ارشاد فرماتے ہوئے سناجس شخص کی موت اس حال میں آئی کہ وہ اللہ تعالا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، تو یقینا اللہ تعالا نے اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دی۔ (مشکوۃ شریف)
توحیدیعنی اللہ ربّ العزت کی وحدانیت کی گواہی و شہادت پورے اسلام کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ، جس کسی نے سچے دل سے اور سوچ سمجھ کر اللہ کے وحدہ لا شریک ہونے کی شہادت دی اور شرک سے بچارہا، اس شخص کی زندگی مکمل طور پر دینِ اسلام کے مطابق ہوگی۔ کیوں کہ جب کسی شخص کی گواہی یہ ہو کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالا ہے، وہی عطا کرنے والا، روکنے والا ہے، ہدایت دینے والا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عطا کرنے والا نہیں، اور نہ اس کے سوا کوئی نفع و نقصان دینے والا ہے، تو اس طرح ہر ضرورت کے وقت اس کے ذہن میں اللہ تعالا کی یادہی آئے گی اور اس کے تمام احکام بھی یاد آئیں گے اور یہ شخص ان پر عمل بھی کرے گا۔ جب کسی بندہ کی توحید کامل ہو جاتی ہے، تو وہ مخلوق میں کسی ایک کا سردار بننا بھی پسند نہیں کرتا۔ کیوں کہ اس کی نظر میں بڑائی کا تصور صرف اللہ تعالا کے لیے ہے۔
جو ہتھیار شیطان سے جنگ کرنے میں انسان کو مدد دیتے ہیں۔ ان میں بہتر اور کار آمدہتھیار کلمۂ توحید ہے۔ قرآنِ مجید میں عقیدہ توحید کی پختگی حاصل کرنے کے لیے سورۂ اخلاص کا ورد کرتے رہنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ توحید اسلام کا بنیادی درس ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا لا اِلہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی عبادت کاحق دارنہیں) کی شہادت دینا جنت کی کنجی ہے۔ اس حدیثِ مبارکہ میں شہادتِ توحید سے مراد دعوتِ ایمان و اسلام کو قبول کرنا ہے۔ اللہ تعالا پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم تسلیم کریں کہ اللہ تعالا ایک ہے اور اپنی ذات اورصفات اور افعال میں یگانہ ہے۔ فی الحقیقت کسی اَمر میں کوئی اس کا شریک نہیں نہ وجوب وجود میں اور نہ الوہیت میں، اور نہ خواص الوہیت میں اور نہ قدم اور ازلیت میں اور نہ استحقاقِ عبادت میں اور نہ تدبیر و تصرف میں۔ وہ اپنی ذات اور صفات میں فرد و یگانہ ہے…… کوئی اس کا مثل اور شریک نہیں۔
اس بات پر ایمان رکھنا کہ میرا ربّ بڑا ہی مہربان ہے، وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے، اللہ تعالا ہر عیب سے پاک ہے، یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ خداوندِ تعالا ایک ہے، اس کا کوئی ہمسر نہیں، کوئی ثانی نہیں، کوئی شریک نہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
ایک مرتبہ منکرین خدا کا ایک گروہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں قتل کرنے کے ارادہ سے حاضر ہوا۔ امام اعظم ؒنے فرمایا تم ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو کہ جو یہ کہے کہ مَیں نے دریا میں سامان سے بھری ہوئی ایک کشتی دیکھی ہے جو اس کنارے سے خود بخود سامان لے جاتی ہے اور دوسرے کنارے پر لے جا کر اُتار دیتی ہے اور دریا کی موجوں کو چیرتی ہوئی سیدھی نکل جاتی ہے۔ کوئی ملاح اس کے ساتھ نہیں۔ خود بخود سامان اس میں لد جاتا ہے اور خود بخود اُتر جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ بات تو ایسی خلافِ عقل ہے کہ کوئی عاقل اس کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ امامِ اعظمؒ نے فرمایا افسوس تمہاری عقلوں پر، جب ایک کشتی بغیر ملاح کے نہیں چل سکتی، تو سارے عالم کی کشتی بغیر ملاح کے کیسے چل سکتی ہے؟
امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ آدمی کا چہرہ دیکھو کتنا چھوٹا ہوتا ہے اور ہر آدمی کے چہرہ میں آنکھ اور ناک اور کان اور زبان اور رُخسار اور ہونٹ وغیرہ وغیرہ سب چیزیں موجود ہیں، مگر باوجود اس کے کسی ایک کی بھی صورت اور شکل دوسرے سے نہیں ملتی اور کسی کی آواز دوسرے کی آواز سے نہیں ملتی اور کسی کی چال و ڈھال دوسرے سے نہیں ملتی۔ غرض یہ کہ صورتوں اور شکلوں کا الگ الگ ہونا اور آوازوں اور لہجوں کا اور اعضا اور جوارح کا مختلف ہونا یہ خالقِ کائنات ’’اللہ تعالا‘‘ کی کاری گری ہے جس نے ہر ایک کو ایک خاص ہیئت اور صورت عنایت فرمائی کہ جو دوسرے میں نہیں پائی جاتی۔ یہ کسی بے شعور مادہ کی کاری گری نہیں۔
قارئین کرام، بنی آدم کو ہر حال میں اللہ ربّ العزت کو خالقِ حقیقی اور وحدہ لاشریک مانتے ہوئے اپنے ایمان کی تکمیل کرنی چاہیے۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔