چند ماہ قبل ایک ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ موصوف نے اپنی گاڑی کے میٹر پر اپنے بچوں کی تصاویر چسپاں کر رکھی تھیں۔ ڈرائیور کی اپنے خاندان سے والہانہ محبت میرے لیے قدرے تعجب کا باعث بنی اور اوراس انوکھے اندازِ محبت کی وجہ پوچھے بنا نہ رہ سکا۔ موصوف مسکرائے اور بولے میں جیسے جیسے رفتار بڑھاتا ہوں، تو مجھے میٹر پر گردش کرتی سوئی اپنے خاندان کی یاد دلاتی ہے اورمیں تیز رفتاری سے رُک جاتا ہوں۔ جلد روانگی اور متوسط رفتار محفوظ زندگی کی ضامن ہے۔ تیز رفتاری خدانخواستہ آپ کی آخری روانگی ثابت ہوسکتی ہے۔
ٹریفک حادثات کا شکار افراد کا عالمی دن منانے کا آغاز1993ء میں ہوا اور 2005ء سے اقوامِ متحدہ نے اسے باضابطہ طور پر منانے کا آغاز کیا۔ یہ دن سالانہ نومبر کے تیسرے ہفتے میں دنیا کے بیشتر ممالک، مختلف تنظیموں اور طبقات کی جانب سے منایا جا تا ہے۔
دنیا بھر میں سالانہ تقریباً 1.3ملین افراد روڈ حادثات کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ہر 24 سیکنڈز میں دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ایک فرد روڈ حادثات کی وجہ سے لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔ تناسب کے حساب سے روزانہ تقریباً 3,700 افراد روڈ حادثات میں ابدی سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں جب کہ لگ بھگ 20تا 50 ملین جان لیوا زخموں کا شکار ہوجایا کرتے ہیں…… جو اکثر اوقات عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ٹریفک حادثات کے سبب اخراجات کا حجم اکثر ممالک کی جی ڈی پی کا 3 فی صد بنتا ہے جب کہ ان حادثات میں زخمی ہونے والے93 فی صد افراد کا تعلق غریب اور متوسط ممالک سے ہے۔ ان ممالک میں دنیا بھر کی کل ٹریفک کا حصص 60 فی صد ہے۔
ٹریفک حادثات 5 سے 29 سال کی عمر کے افراد میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہے…… جب کہ 15 سے 44 سال کی عمر کے افراد دنیا بھر میں ہونے والے50 فی صد ٹریفک حادثات کا موجب گردانے جاتے ہیں۔ دیگر ممالک میں سفر کے دوران میں صحت مند امریکی افرادکی موت کی ایک بڑی وجہ ٹریفک حادثات ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بھارت ٹریفک حادثات کی وجہ سے اموات میں پہلے نمبر پر ہے…… جب کہ بھارت میں دنیا بھر کے مقابلے میں صرف 1 فی صد گاڑیاں پائی جاتی ہیں۔اس کے برعکس عالمی سطح پر ٹریفک حادثات کے سبب وقوع پذیر ہونے والی اموات کا 11 فی صد حصص بھارت کے حصے میں آتا ہے۔ بھارت میں سالانہ تقریباً 450,000 حادثات رونما ہو تے ہیں جن میں 150,000 افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ہر گھنٹے میں اوسطاً 53 ٹریفک حادثات جب کہ ہر 4 منٹ میں ایک موت واقع ہوتی ہے۔
ٹریفک حادثات کے سبب سب سے زیادہ شرحِ اموات افریقی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ کم آمدن اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد امیر افراد کی نسبت زیادہ حادثات کا شکار ہو تے ہیں۔ نوجوان عورتوں کی نسبت نوجوان مردوں میں ٹریفک حادثات کی شرح زیادہ ہے۔ 73 فی صد ٹریفک حادثات 25 سال سے کم عمر نوجوان مردوں کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں…… اور ان حادثات میں ان کی شرحِ اموات خواتین کے مقابلے میں 3 فی صد زیادہ ہے۔
ٹریفک حادثات کے سبب اموات کی بہتات کو صرف انسانی غلطی سے پاک ٹریفک کے نظام کے ذریعے کم کیا جا سکتاہے۔ اگر ہم انتہائی خطرناک، جان لیوا اور مہلک زخموں کا سبب بننے والے حادثات کی روک تھام کو یقینی بنائیں، تو موجودہ صورتِ حال کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اوسط حدِ رفتار میں 1 فی صد اضافہ کی صورت میں حادثہ کا امکان 4 فی صد بڑھ جا تا ہے…… جب کہ یہی اضافہ اگر 3 فی صد تک ہوجائے، تو انتہائی خطرناک حادثہ درپیش آسکتا ہے۔ 50 سے 60 کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے گاڑی چلانے پر پیدل چلنے والے افراد میں 4.5 فی صد بڑھ جاتا ہے…… جب کہ اسی رفتارپر گاڑی کی آگے والی نشستوں پر براجمان افراد میں یہ شرح 85 فی صد تک بڑھ جاتی ہے۔
نشے کی حالت یا نفسیاتی دباؤمیں گاڑی چلانے کی صورت میں شرحِ اموات اور مہلک زخموں کا امکان کئی گنابڑھ جا تا ہے۔ درست طریقے سے ہیلمٹ پہننے سے شدید جان لیوا زخموں میں 42 فی صد جب کہ شرحِ اموات میں 69 فی صد کمی لائی جا سکتی ہے۔
سیٹ بیلٹ باندھنے شرحِ اموات 45 سے 50 فی صد تک کم ہو جاتی ہے…… اور گاڑی کی پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والوں میں شدید زخموں کا امکان25 فی صد تک گر جاتا ہے۔
کم عمر ڈرائیوروں پر پابندی پرعمل درآمد کی صورت میں حادثات کو 60 فی صد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
گاڑی چلاتے ہوئے موبائل کے استعمال سے حادثات کا امکان 4 گنا بڑھ جا تا ہے۔
ہمیں اپنی سڑکوں کو اس انداز سے بنانا ہے، تاکہ یہ ہر طرح کے استعمال کنندگان کے لیے محفوظ ہوں۔ ہم اقوامِ متحدہ کے وضع کر دہ ٹریفک قوانین اور اصول و ضوابط پر سختی سے عمل کر کے قیمتی جانوں کا ضیاع روک سکتے ہیں۔ حادثے کے بعد بروقت ابتدائی طبعی امداد کسی مسیحا سے ہر گز کم نہیں۔ ہمیں کوشش کر کے اس کی جلد اور بروقت فراہمی کو تیز تر کرنے کا تہیہ کر نا ہوگا۔
متذکرہ بالا عوامل کے مکمل خاتمے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو یکجا ہو کر ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر اور غریب ممالک کی تکنیکی اور مالی مدد کے لیے آگے بڑھیں…… تاکہ انسانی جان کو محفوظ تر بنانے میں اہم کردار ادا کیا جاسکے۔ اقوامِ متحدہ کے 2010ء کے عشرہ برائے عمل میں تقریباً 110 ممالک شامل ہیں…… جنہوں نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو ٹریفک حادثات کے باعث لقمۂ اجل بننے سے روکنے کا عہد کیا ہے…… تاہم مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔
ورلڈہیلٹھ آرگنائیزیشن کی 2018ء کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے ممالک کی تعداد 175 ہو چکی ہے۔ 2021ء تا 2030ء کے لائحہ عمل میں بھی ماضی کے لائحہ عمل والے اہداف ہی دہرائے گئے ہیں۔ اگر ہم اس لائحہ عمل میں تیز رفتاری کو کم کرنے کے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگئے، تو عالمی سطح پر حادثات میں 50 فی صد کمی واقع ہو جائے گی۔
یہ بات حیران کن ہے کہ غریب ممالک میں دنیا بھر کی محض 1 فی صد ٹریفک موجود ہے، جب کہ ٹریفک حادثات کے سبب شرحِ اموات 13 ہے۔
اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں دنیا بھر کی 40 فی صد ٹریفک موجود ہے اور حادثات کی شرح 7 فی صد ہے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق 1.6 منٹ میں ایک حادثہ رونما ہوتا ہے اور ریسکیو 1122 پنجاب میں روزانہ تقریباً 1000 ٹریفک حادثات سے نبرد آزما ہوتی ہے۔
سال 2004ء میں لگ بھگ 3 ملین ٹریفک حادثات رونما ہوئے جن میں سے اکثریت موٹر سائیکل سواروں کی تھی۔ اوسطاً 1000 خاندان نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوئے۔ کیوں کہ ان کے خاندان کا واحد کفیل یا تو جان کی بازی ہار گیا، یا عمر بھر کے لیے معذور ہوگیا۔
دنیا بھر میں مہذب اقوام منظم ٹریفک سے پہچانی جاتی ہیں۔ سڑک پر حفاظت ایک کلچر ہے…… جسے ٹھوس اقدامات کے ذریعے مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں نہ صرف ڈرائیونگ لائسنس کے اجرا کے معیار کو بہتر بنانا ہے…… بلکہ ٹریفک حادثات سے متعلق عوامی آگاہی کے ساتھ ساتھ اسے اپنے نصاب کا حصہ بنانا ہے۔ جب تک ہم ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنائیں گے…… تب تک ٹریفک حادثات کے سبب قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔
…………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔