عمر شریف کے ساتھ کامیڈی کا ایک باب بند

آج آفس سے آیا، تو سب سے پہلی خبر یہ ملی کہ عمرشریف دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ خبر سنتے ہی دل بیٹھ سے گیا۔ کیوں کہ عمرشریف کا مَیں اکیلے نہیں، ہر بندہ بڑا فین تھا۔ مَیں عمرشریف کو بچپن ہی سے پسند کرتا تھا۔ اُن کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتا تھا۔ ان کاکمپیئرنگ کرنے کا سٹائل اتنا دل کش ہوتا تھا کہ ان کے چٹکلوں سے پہلے ہی حاضرین کی ہنسی چھوٹ جاتی تھی۔
عمر شریف مِزاح کی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے عارضۂ قلب، گردوں اور ذیابیطس کے مرض کی وجہ سے ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے والے عمرشریف کی جب طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی، تو ان کو بیرونِ ملک لے جایاگیا۔ ان کوعلاج کی غرض سے 28 ستمبر 2021ء کو ائیر ایمبولینس کے ذریعے امریکہ روانہ کیا گیا، تاہم طویل سفر اور تھکاوٹ کے باعث انہیں جرمنی کے اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا، جہاں انہیں نمونیا ہوگیا اور ائیر ایمبولینس میں فنی خرابی کے باعث ان کا جرمنی میں وقفہ طویل ہوگیا۔ امریکہ پہنچنے سے پہلے ہی وہ جرمنی میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔
کامیڈی کے بے تاج بادشاہ عمر شریف 19 اپریل 1955ء کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پیدا ہوئے۔ انتہائی کم عمری میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ شرارتی، نٹ کھٹ اور ہر فنِ مولا ’’عمر شریف‘‘ محلے میں گھومتے پھرتے بس لوگوں کی نقلیں اتارتے۔ کبھی چٹکلے سنا کر لوٹ پوٹ کرتے، تو کبھی فلمی ستاروں کی آوازیں نکال کر پورے محلے کو زعفران زار بنا دیتے۔
عمر شریف بچپن سے اپنے دور کے معروف کامیڈین منور ظریف سے خاصے متاثر تھے۔ منور ظریف کو کاپی کرتے ہوئے انہوں نے اپنے نام میں ’’ظریف‘‘ کے ہم قافیہ لفظ ’’شریف‘‘ کا اضافہ کیا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ عمر شریف کی ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ ایک بار ملنے کے لیے ہوٹل پہنچے، تو منور ظریف نیند کے مزے لوٹ رہے تھے جبھی مایوس ہو کر واپس آ گئے۔ البتہ جب لاہور کا رُخ کیا، تو منور ظریف کے گھر کی دیواروں کو چوم کر ان سے عقید ت کا اظہار کیا۔
عمر شریف نے فنی سفر کی ابتدا سٹیج ڈراما ’’بائیونک سرونٹ‘‘ سے کیا۔ یہ ان کا پہلا کمرشل ڈراما تھا، جس میں انہوں حسبِ روایت خوب کامیابی سمیٹی۔ کراچی میں جب تھیٹر ڈراما سجتا، عمر شریف کا نام دیکھ کر تماشائی دوڑ پڑتے۔ عمر شریف نے سنہ 80ء کی دہائی میں آڈیو کیسٹ کے ذریعے ’’عمر شریف شو‘‘ کے نام سے سیریز جاری کی، جس کے پہلے ہی حصے نے عوام میں مقبولیت حاصل کرلی۔ بالخصوص وہ افراد جو تھیٹر کا رُخ نہیں کرتے تھے، ان تک عمر شریف کے دلچسپ جملے اور برجستہ کامیڈی پہنچنے لگی۔ عمر شریف کی اس سیریز کی پانچ کیسٹیں آئیں، جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئیں۔
عمر شریف کے یوں تو کئی سٹیج ڈراموں نے دھوم مچائی، البتہ ’’بکرا قسطوں پہ‘‘ ان میں سب سے زیادہ مقبول رہا جس کے پانچ سیزن آئے۔ عمر شریف کے مطابق اس ڈرامے کا پہلا حصہ انہوں نے صرف دو دن میں لکھا تھا۔ ’’بکرا قسطوں پہ‘‘ اور ’’بڈھا گھر پے ہے‘‘ جیسے ڈراموں نے پاکستان میں خوب کمائی کی۔
عمر شریف نے اپنی قسمت فلمی دنیا میں بھی آزمائی۔ 1986ء میں ’’حساب‘‘ اور ’’خاندان‘‘ نامی فلموں میں کام کیا۔ 1992ء میں اپنی ہی ڈائریکشن میں تیار ’’مسٹر 420‘‘ سنیما گھروں کی زینت بنائی، تو اپنے مِزاحیہ جملوں، دلچسپ کہانی اور موسیقی کی بنا پر اس فلم نے دھوم مچا دی۔ عمر شریف کو ’’مسٹر 420‘‘ پر بہترین اداکار سمیت چار نگار ایوارڈز ملے۔ وہ واحد آرٹسٹ ہیں جنہوں نے ایک ہی سال میں چار نگار ایوارڈ حاصل کیے۔ اس بے مثال پذیرائی کے بعد عمر شریف نے ’’مسٹر چارلی‘‘، ’’مس فتنہ‘‘، ’’چلتی کا نام گاڑی‘‘، ’’جھوٹے رئیس‘‘، ’’بہروپیا‘‘، ’’چاند بابو‘‘، ’’کھوٹے سکے‘‘ اور ’’چھپا رستم‘‘ جیسی بہترین فلموں کا تحفہ اپنے چاہنے والوں کو دیا۔
تمغائے امتیاز حاصل کرنے والے عمر شریف عمران خان کے شوکت خانم اسپتال کے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف شوز کرچکے ہیں۔ اسی ہسپتال سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنی والدہ کی یاد میں خود بھی ایک اسپتال تعمیر کرایا۔ عمر شریف کا فنی سفر پانچ دہائیوں پر مبنی رہا۔
وہ آج اس دنیا میں نہیں رہے، مگر ان کا نام زندہ رہے گا۔ ان کے دل کو لبھاتے جملے اور اداکاری یاد رکھی جائے گی۔ وہ کامیڈی کی دنیا کا ایک ایسا باب ہیں جس کا آج اختتام ہوگیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے گھر والوں کو صبرِجمیل عطا فرمائے، آمین!
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔