جس دن میرا کالم ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے حوالے سے شائع ہوا۔ اسی دن اتفاق سے ایک تقریب میں میری ملاقات چند تحریک انصاف کے دوستوں سے ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ میں ذاتی طور پر پیپلز پارٹی سے ہم دردی رکھتا ہوں اور تحریکِ انصاف سے ایک خاص قسم کا عناد۔ حالاں کہ یہ حقیقت نہیں۔
مَیں ذاتی طور پر ایک سیاسی رائے رکھ سکتا ہوں، لیکن میرے تمام کالم گواہ ہیں کہ مَیں نے اپنی تحاریر ہمیشہ ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے رقم کیں، بلکہ ’’ روزنامہ آزادی‘‘ اور لفظونہ ڈاٹ کام میں لکھنے سے پہلے میرے کالم کا نام ہی ’’عام پاکستانی‘‘ تھا، جو کہ روزنامہ آزادی اور لفظونہ ڈاٹ کام کے ادارتی صفحہ کے مدیر امجد علی سحابؔ نے تبدیل کر دیا۔ سو یہ الزام بالکل غلط ہے۔
ہم نے بارہا مثبت انداز میں تحریکِ انصاف کو مشورے دیے…… ان کے بالکل نچلی سطح کے عہدیداروں سے لے کر اوپری سطح تک کی قیادت کو، بلکہ مرحوم نعیم الحق صاحب کی کڑوی کسیلی بھی سنی، لیکن تحریکِ انصاف پر بے شمار لکھا۔ پھر جب یہ اندازہ ہوا کہ یہاں شاید ہم جیسوں کو سننا پالیسی ہی نہیں، تو بجائے انصافین کی گالیاں کھانے کے بہتر سمجھا کہ خاموش رہ کر دیکھا جائے اور ان کے لیے دعا ہی کی جائے جو تاحال کر رہے ہیں۔
مَیں نے پی پی پر جو کالم لکھا، اس کے جواب میں مجھے ایک خط بذریعہ ای میل ان کے ایک ضلعی عہدیدار سے ملا، جو میں اِن شاء ﷲ اگلے کالم میں لگاؤں گا، تو قارئین فیصلہ آپ کر لیں کہ دوسروں خواہ پی پی ہو، جماعتِ اسلامی ہو، اے این پی ہو، خواہ جمعیت العمائے اسلام ہو، حتی کہ ن لیگ اور ایم کیو ایم کے گلے شکوؤں کی زبان اور طریقہ کتنا مہذب ہوتا ہے اور ’’انصافین‘‘ کہ جن کا دعوا تعلیم و دانش ہے، ان کا معیار کیا ہے؟ گالی گلوچ، انتہائی فحش اور فتوا بازی ان کا خاصہ ہے۔ سچی بات ہے کہ اب تو اگر کوئی انصافی ذاتی غصہ کی بجائے دھیمے لہجے میں شکوہ و شکایت کرے، تو مجھے شک ہو جاتا ہے کہ یہ نظریاتی اور سچا انصافی ہے ہی نہیں۔
بہرحال مَیں اپنے تحریک انصاف کے دوستوں کے لیے ایک خط لگا رہا ہوں، جو مَیں خود دھرنے کے دوران میں خان صاحب کے ہاتھ دیا تھا ( ویسے اس سے پہلے 1996ء میں جب تحریکِ انصاف کی ابتدا ہوئی تھی، تب بھی ایک خط خان کو لکھا تھا، لیکن وہ خط اس صورتِ حال میں غیر متعلقہ ہے۔ کیوں کہ اس میں بنیادی درخواست یہی تھی کہ خان صاحب آپ پاؤر پالیٹکس کی بجائے پریشر پالیٹکس کریں۔ ظاہر ہے خان صاحب نے ایسا نہیں کیا، تو وہ خط اب غیر ضروری ہے) اور جب اس کے اقتباس میں، مَیں نے تحریک انصاف کے کارکنان سے شیئر کیے، تو مجھ پر ن لیگ کی ایجنٹ ہونے کا الزام کافی شدت سے لگایا گیا۔ گو کہ یہ خط شاید 2014ء میں لکھا گیاتھا۔ اب ظاہر ہے پلوں کے نیچے بہت سا پانی نکل چکا ہے، لیکن پھر بھی انصافین دوست اس کو ایک بار پڑھ کر فیصلہ کریں کہ کیا اب بھی تحریکِ انصاف میں بہتری کی گنجائش ہے یا نہیں؟ سو وہ خط حاضر خدمت ہے:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم !
محترم جناب عمران خان صاحب، قائد اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پاکستان!
جناب والا! ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے آپ کو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مزید اس کے ساتھ ایک مکمل بروشر بھی ہے۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو، تو پڑھ لیں۔
محترم خاں صاحب! میری تمام تر ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں اور مَیں یقینا آپ کے بارے میں یہ حسنِ ظن رکھتا ہوں کہ آپ واقعی دل سے تبدیلی چاہتے ہیں۔ اگر اﷲ نے آپ کو موقع دیا، تو یقینا آپ اس ملک میں تبدیلی لائیں گے۔ لیکن خاں صاحب گذشتہ چند دنوں میں آپ کی کچھ پالیساں ہمارے دلوں میں بے شمار خدشات کو پیدا کر رہی ہیں۔ مثلاً آپ کا سب سے اول بیانیہ یہ تھا، ’’پرانے جغادری سیاست دانوں سے عوام کو بچانا‘‘ لیکن جناب والا اب آئے دن تھوک کے حساب سے آپ کے اسٹیج پر وہی گھسے پٹے چہرے قابض ہو رہے ہیں۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ آپ مکمل طور پر ان کے حصار میں ہوں گے۔
خاں صاحب! آپ کا یہ کہنا کہ اوپر لیڈر صحیح ہو، تو سب صحیح ہوتا ہے۔ یہ تاریخی طور پر غلط ہے اور اس کو منطق تسلیم کرتی ہے نہ تجربہ۔ مثلاً آپ کو بس تین مثالیں دینا چاہوں گا اور یقینی طور پر آپ کی حیثیت ان تینوں شخصیات کے مقابلہ میں بہت ہیچ ہے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کہ جن کے ظلم و کفر کی حکومت والے بیان کو آپ تواتر سے دوراتے ہیں۔روایات میں آتا ہے کہ ایک دفعہ کسی نے حضرت علی کو کہا کہ جناب پہلے خلفا کے دور میں بہت فتوحات ہوئیں، لیکن آپ کے دور میں انارکی اور داخلی انتشار بہت بڑھ چکا ہے، تو مولا علی نے جواباً کہا کہ جب عمر ابن خطابؓ خلیفہ تھے، تو مشیر ہم تھے۔ اب میں خلیفہ ہوں اور مشیر تم جیسے ہیں۔ مطلب ایک نا اہل مشیر ہو، تو شیرِ خدا، بابِ علم کی حکومت بھی مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر ہوتی ہے۔
دوسری ایک مثال پاکستان کے بانی، پاکستان نے بہت مایوسی میں کہا تھا کہ مَیں کیا کروں…… میری جیب میں سارے سکے کھوٹے ہیں۔ پھر قائد کے بعد اس ملک کے مقبول ترین اور قابل ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی بات کرتا ہوں۔ انہوں نے موت کی کوٹھڑی میں یہ کہا تھا کہ میری اس حالت کے ذمہ دار یہ کھر، ٹوانے، چٹھے، ملک اور پیرزادے ہیں۔ اگر مجھے قدرت نے اب موقع دیا، تو میں دوبارہ اپنے غریب کارکنوں کے پاس جاؤں گا کہ جنہوں نے مجھے لیڈر بنایا۔
سو خاں صاحب آپ کس راہ نکل پڑے ہیں؟ مَیں ایک جاہل آدمی ہوں، لیکن آپ میری بات لکھ لیں کہ آپ ان لوگوں کہ جن کی آمد آپ کے انصافین ویلکم ویلکم سے کرتے ہیں، آپ کو ناکام کر دیں گے۔ اور خود ’’ملک کے عظیم مفاد‘‘ اور ’’عوام کے مشورے‘‘ سے کسی دوسری جماعت میں شامل ہوجائیں گے۔
خاں صاحب! آپ کو شاید ایک دفعہ وزیر اعظم بننے کا تو موقع مل جائے، لیکن آپ رتی برابر ڈلیور نہیں کر سکیں گے۔ اس نئی نسل کہ جس نے آپ سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی ہیں، ان کے جذبات اور توقعات کا خون ہو جائے گا۔ اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
جناب والا! آپ کو حکومت ملے یا نہ ملے، لیکن آپ کی عوامی مقبولیت میں تو شک ہی نہیں۔ سو خدا کا واسطہ ہے خاں صاحب، اس مقبولیت کو اپنے لیے، اپنی طاقت کے لیے مت استعمال کریں بلکہ ملک کی بہتری کے لیے استعمال کریں۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو!
امید ہے کہ آپ میری ان گذارشات پر غور کریں گے۔ اس کے ساتھ لگے کاغذات میں، مَیں نے اپنی طرف سے تمام تجاویز لکھ دی ہیں۔
فقط
آپ کا ہمدرد ایک عام پاکستانی، سید فیاض حسین گیلانی۔
لیکن اس کے ساتھ مَیں نے جو قریب 30 صفحات کا دستہ دیا تھا، خاں صاحب کو اس میں تمام عوامی مسائل کا ایک قابلِ عمل حل جو میری سوچ کے مطابق تھا اور کچھ لوگوں کی تاریخ درج تھی، بہرحال خان صاحب نے ان صفحات کو پڑھا ضرور۔ کیوں کہ اس کا یقین مجھے یوں ہے کہ خاں صاحب کنٹینر سے خطاب فرمایا کرتے تھے، مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اس میں کہیں نا کہیں میری گذارشات سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ عملی طور پر شاید انہوں نے اس کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔ آج بھی اگر انصافین یہ معمولی عہدے اور سیلفی مافیہ سے دور ہوں اور کھل کر سوشل میڈیا ہو یا مشیر و وزیر، اُن پر حقائق کا پرچار کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ حکومت کی سمت کلی نہیں، تو جزوی درست نہ ہو۔ لیکن اگر تحریکِ انصاف کے کارکنان اسی طرح ہر بات کی توجیح ڈھونڈتے رہے، ہر حکومتی غلط اقدام کو جواز دیتے رہے، تو وہ وقت بالکل قریب ہے کہ جب پاکستان تحریکِ انصاف تباہ و برباد ہو جائے گی۔ اب انصافین یہ ضرور سوچیں کہ چلو مہنگائی کے لیے کرونا کی شکل میں ان کے پاس ایک ’’بہانہ‘‘ ہے۔ مؤثر قانون سازی واسطے ان کے پاس کم پارلیمانی اکثریت اور مشترکہ حکومت کا بہانہ ہے، لیکن ایسے اقدامات کہ جو مکمل طور پر سیاسی اور انتظامی ہیں، ان پر بھی ایک فی صد تک پیش رفت کیوں نہ ہوئی۔ مثال کے طور پر خان صاحب نے تحریکِ انصاف کو بطور ایک جماعت ادارہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ کہا تھا کہ تحریکِ انصاف ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ اور برطانیہ کی جماعتیں ہیں، کی طرح ایک ادارہ بنائیں گے، لیکن اس پر کیا پیش رفت کی؟ پھر ملک میں پولیس، محکمۂ مال وغیرہ میں اصلاحات سے کس نے روکا ہے؟ کرپشن جو آپ کا بنیادی نعرہ تھا، پر آپ نے کیا کیا؟ معذرت کے ساتھ، ہر بات کا جواب صفر جمع صفر ہے۔سو ہم انصافین کو یہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اگر تحریکِ انصاف کو بچانا چاہتے ہیں، تو اب بھی کافی گنجائش ہے کہ وہ ایمان داری سے حرکت میں آئیں اور جماعت کی سمت درست کرنے میں کردار ادا کریں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔