تبصرہ نگار: علی عمار یاسر 
چارلس ڈکنز کا ناول ’’دو شہروں کی کہانی‘‘ اپنے انجام کو پہنچا اور مجھے اداس کرگیا۔ ابھی پچھلے دنوں ملتان میں ہوئی بارش کے دوران میں، مَیں نے خانہ بدوشوں کو اپنی جھونپڑی کا مختصر ساز و سامان سمیٹ کر ایک قریبی دیوار کے ناکافی سائے میں پناہ لیتے دیکھا، تو سوچ میں پڑگیا کہ اس وقت یہ جھونپڑی والے کیا سوچ رہے ہوں گے؟ ناول کے ایک دم توڑتے، غریب الحال اور مجروح کردار نے جب اپنے باپ کی اس بات کو دُہرایا کہ ’’دعا کرو ہماری عورتیں بانجھ ہوں اور ہماری نسل معدوم ہو جائے۔ کیوں کہ اس ذلیل دنیا میں بچے پیدا کرنے کی خواہش بذاتِ خود ایک ہولناک خواہش ہے!‘‘ تو مَیں جان گیا کہ وہ جھونپڑی والے بھی اپنی عورتوں کے بانجھ ہونے کی دعا مانگتے ہوں گے۔
انقلابِ فرانس کے گرد گھومتی، لندن اور پیرس دو شہروں کی کہانی دراصل دو طبقوں کی کہانی ہے۔ ایک وہ طبقہ ہے جس کے تیز رفتار چھکڑے تلے مفلوک الحال ماں باپ کا بچہ مرتا ہے، تو وہ چھکڑے سے اُترنے کی زحمت کیے بغیر، اس نقصان کی تلافی کی غرض سے کچھ سکے باہر اُچھال دیتے ہیں۔ دوسرا طبقہ ان ماں باپ کا ہے جن کے لختِ جگر کی بے وقت اور بے رحمانہ موت کی تعزیت چند سکوں کی بھیک سے کی جاتی ہے۔ لیکن کتابوں میں لکھا ہے اور ’’عرب سپرنگ‘‘ میں ہم نے دیکھا ہے کہ ظلم برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے اور جب ناآسودہ عوام ہجوم در ہجوم ایک دریا کے مانند جھوم کر نکلتے ہیں، تو اشرافیہ کے حفاظتی بند، تنکوں سے بھی کم زور ثابت ہوتے ہیں اور مست دریاؤں کا قہر ٹالنے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ سکہ جو چھکڑے سے باہر اُچھالا گیا تھا، باہر سے کوئی بدمست اس خیرات کو توہین آمیز انداز میں دوبارہ چھکڑے کے اندر اچھال کر قاری کو بتاتا ہے کہ فرانس کے عوام کی برداشت اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔
ڈکنز، لیکن اس خونی انقلاب کا حامی نہیں۔ جہاں وہ اشرافیہ کے ظلم و ستم بتا کر انقلاب کی وجوہات بیان کرتا ہے، وہیں وہ انقلابیوں کی بربریت اور وحشت کی کہانیاں سنا کر اس بے رحم انقلاب کے ’’ثمرات‘‘ بھی عیاں کرتا ہے۔ وہی بربریت اور وحشت جس کا شکار فرانس کے ایک متکبر اور ظالم خاندان کا شریف النفس وارث ’’چارلس ڈارنے‘‘ ہوتا ہے، جس نے انقلاب سے پہلے ہی اپنی متعفن وراثت، دولت اور خاندانی نام و القابات کو لات مار کر لندن میں اپنی محنت کے بل بوتے پر رہنے کو ترجیح دی، لیکن انقلابیوں کی نظر میں وہ اب بھی اسی اشرافیہ کا نمائندہ ہے جس کے خلاف وہ یہ خونی انقلاب لائے تھے۔
’’ڈاکٹر منیٹ‘‘ کا کردار اپنی جگہ ایک بھرپور اور توانا کردار ہے۔ 18 سال تک فرانسیسی اشرافیہ کی قید میں رہنے کی وجہ سے وہ اپنے حواس تو کھو بیٹھتا ہے، مگر انقلابیوں کے لیے ایک ہیرو کی حیثیت بھی اختیار کر جاتا ہے۔ کیا انقلابیوں پر اس کا اثر اس کے خاندان کی حفاظت کے لیے کافی رہے گا؟ اور انقلابی بھی وہ جو اُسے کہتے ہیں کہ ’’اپنی ایک عزیز ہستی کو ریاست کے خوں آلود چرنوں میں دان کر دو!‘‘ یہ وہ سوال ہے جو قاری کو ناول کے آخری نصف میں بہت پریشان کرتا ہے۔
وفادار دوست ’’مسٹر لاری‘‘ اور ’’ڈاکٹر منیٹ‘‘ کی بلند حوصلہ بیٹی ’’لوسی‘‘ کے بعد ایک اور اہم کردار ’’سڈنی کارٹن‘‘ کا بھی ہے۔ ایک ناکام اور تباہ حال شخص، جس کا اس دنیا میں کوئی چاہنے والانہیں، جس کا مستقبل کوئی نہیں، مگر جس کی ذہانت و قابلیت کسی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ مگر یہ بظاہر ناکام شخص جس جواں مردی و دلیری سے موت کو گلے لگاتا ہے ، اس کا چرچا ایک طویل عرصے تک پیرس کی گلیوں میں گونجتا رہا۔
’’ڈیفارج‘‘ اور ’’میڈم ڈیفارج‘‘ کے کردار انقلابیوں کی بے رحمانہ صفات سے پُر ہیں۔ مگر ان کے ظالمانہ اور نفرت انگیز اعمال کے پسِ پردہ بھی ایک کہانی ہے جو ’’ڈکنز‘‘ نے اپنے قاری کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کرنے کی غرض سے آخر کے لیے بچا رکھی ہے۔ یہ تو خیر ’’ڈکنز‘‘ کا کمال ہے کہ وہ قاری کو یا تو کردار سے شدید نفرت یا شدید محبت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
یہ مجموعی طور پر ایک شان دار ناول ہے۔ کئی ہم وطنوں کو ایک خونی انقلاب کی بہت شدید خواہش رہتی ہے، لیکن وہ اس قسم کے انقلابات کے مضمرات سے ناواقف نظر آتے ہیں۔ انارکی، تشدد، انسانی جانوں کی ناقدری کے علاوہ اس قسم کے انقلابات کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی انقلابیوں کی خونی چکی میں پس جاتا ہے۔
ناول پڑھنے کے بعد مجھے اخبارات کی زینت بننے والے ایسے بے شمار واقعات یاد آگئے جن میں مقتول کے ورثا، طاقتور قاتل کو دیت کے عوض اپنے مقتول کا خون معاف کر دیتے ہیں۔ لیکن مقتدر اشرافیہ اس بات سے بے خبر ہے کہ جس دن کسی لاچار نے ان کا سکہ واپس ان کے چھکڑے میں اُچھال دیا، تو اُس کے بعد کیا ہو گا؟
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔