سوات کے مرکزی اور سب سے بڑے شہر مینگورہ میں ٹریفک کا اِزدحام لوگوں کے لیے دردِ سر بن گیا ہے۔ ریاستِ سوات دور میں والیِ سوات نے مینگورہ کی سڑکیں اُس وقت موجود پانچ تا دس گاڑیوں کے لیے بنائی تھیں جس پر اب ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں چل رہی ہیں۔
مینگورہ شہر کی مین سڑکیں 17 کلومیٹر ہیں۔ بائی پاس اور لنک سڑکوں کی تعداد 11.5 کلومیٹر ہے، جن کو ملا کر شہر کی تمام سڑکیں 27.7 کلومیٹر بنتی ہیں۔ سوات ٹریفک پولیس کے سروے کے مطابق مینگورہ شہر میں ان سڑکوں پر پیر تا جمعرات 58 ہزار گاڑیاں شہر میں داخل ہوتی ہیں اور 65 ہزار گاڑیاں باہر جاتی ہیں۔ اگر مینگورہ شہر کے ان 27.7 کلومیٹر پر محیط سڑک کے دونوں اطراف چار میٹر کے حساب سے گاڑیاں کھڑی کردی جائیں، تو ان پر 12ہزار گاڑیاں ہی کھڑی ہوسکتی ہیں۔
اس طرح شہر میں کل 13 کار پارکنگ ہیں۔ اگر یہ تمام فل ہوجائیں، تو ان میں 2 ہزار گاڑیاں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے۔ یوں شہر میں کل 33 بس اسٹینڈ یا اڈے ہیں جن میں اگر تمام گاڑیاں کھڑی کر دی جائیں، تو ان میں 4068 گاڑیوں کی گنجائش ہے۔
دوسری طرف مینگورہ شہر میں رکشہ یونین کے ساتھ رجسٹرڈ رکشوں (جن میں چنگ چی شامل نہیں) کی تعداد 13 ہزار سے زائد ہے، لیکن ٹریفک پولیس اور دیگر اداروں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد دوگنی ہے۔ کیوں کہ اس میں سیکڑوں کی تعداد میں محکمہ ایکسائز کے ساتھ غیر رجسٹرڈ رکشے بھی سڑکوں پر دوڑ رہے ہیں۔
پہلے ٹریفک پولیس کی تعداد 350 تھی، جس کو اَب بڑھا کر 500 کے قریب کردیا گیا ہے، لیکن پھر بھی ٹریفک ہے کہ رواں ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
اس وقت شہر میں گاڑیوں کی فی گھنٹا رفتار دس کلومیٹر ہے۔ اب پولیس کی کوشش ہے کہ یہ رفتار 20 تا30 کلومیٹر کیا جائے۔ مئی 2017ء کی مردم شماری میں مینگورہ شہر کی آبادی 3 لاکھ 32 ہزار ہزار تھی، لیکن موجودہ صورتِ حال میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آبادی اب دگنی ہوچکی ہے۔
شہر میں شانگلہ، بونیر، دیر، باجوڑ اور دیگر اضلاع سے بڑی تعداد میں خاندانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ میدانی حصوں میں جگہ کم ہونے اور قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے باہر اضلاع سے آنے والے زیادہ تر لوگ پہاڑوں میں زمین خرید تے ہیں جس کی قیمت میدانی علاقوں سے کم ہے۔ اس وجہ سے رحیم آباد، اسلام آباد، امانکوٹ، فیض آباد، بالیگرام، چیل شگئی، بت کڑہ، کوہستان گٹ، فضاگٹ، زمرد محلہ، ملوک آباد اور دیگر علاقوں میں یا تو پہاڑی کے آخری سرے تک مکانات تعمیرات ہوچکے ہیں یا ہو رہے ہیں۔
مینگورہ شہر میں نان کسٹم پیڈ، نان کسٹم پیڈ ’’کٹ‘‘ (جس پر ہائی کورٹ کی جانب سے پابندی ہے)، رکشے اور موٹر سائیکلوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ چمن اور لنڈیکوتل کے راستوں سے افغانستان سے جاپانی گاڑیوں کی سوات آمد کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ مقامی طور پر تیار ہونے والے رکشے یا تو بغیر نمبر پلیٹ کے چلتے ہیں، یا رجسٹرڈ رکشوں کا ایک نمبر دس، دس رکشوں نے چڑھایا ہے۔ شہر میں قسطوں پر موٹر سائیکلوں اور غیر قانونی رکشوں کی فروخت کی وجہ سے ان کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جو ٹریفک رش میں اضافہ کی وجہ ہے۔ اگر پولیس ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے، تو ’’سیاست دان‘‘ میدان میں کود پڑتے ہیں اور پولیس کو کام کرنے نہیں دیتے۔ اس کی وجہ سے غیر قانونی گاڑیوں کے خلاف کارروائی شروع ہونے سے پہلے بند ہوجاتی ہے۔
شہر میں تجاوزات، ہتھ ریڑھی اور چھابڑی فروشوں کی وجہ سے بھی ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔ سوات میں شورش سے پہلے اور اس کے بعد اور خاص کر سیاحتی علاقوں کو جانے والی سڑکوں کی حالت انتہائی خراب تھی۔ چکدرہ سے کالام، چکدرہ سے براستہ لنڈاکے تا مدین، ملم جبہ اور کرنل شیر خان سے چکدرہ تک موٹر وے کی تعمیر، ملم جبہ میں صوبے کے پہلے فائیو سٹار ہوٹل اور چیئر لفٹ کی تعمیر کے بعد اب سوات کا سفر آسان اور آرام دہ ہوگیا ہے۔ ان سڑکوں کی تعمیر سے پہلے سوات میں سیاح صرف موسمِ گرما میں آتے تھے، لیکن پچھلے سال سے ایسا کوئی مہینا نہیں کہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں سیاح سوات کا رُخ نہ کر رہے ہوں۔ ہر روز آنے والے سیاحوں کے لیے سیکڑوں ہوٹلوں میں جگہ کم پڑجاتی ہے۔ زیادہ تر سیاح پہلے مینگورہ میں قیام کرتے ہیں جس کے بعد وہ دوسرے سیاحتی علاقوں میں جاتے ہیں۔ یہ عمل بھی شہر میں گاڑیوں کی رش کی وجہ ہے۔ سول سو سائٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر حکومت آخری بار نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے لیے ایمنسٹی اسکیم دے، کم پیسوں پر یہ گاڑیاں رجسٹرڈ کرنے دے اور پھر قانون کے مطابق غیر قانونی گاڑیوں پر سخت پابندی لگا دے، تو کافی سہولت آسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس اور دوسرے متعلقہ اداروں کو بلاخوف اجازت دے کہ وہ غیر قانونی گاڑیوں، تجاوزات کے خلاف بلاامتیاز آپریشن کریں۔ شہر میں مزید لنک روڈ اور جہاں ممکن ہو فلائی اوور بنا دیے جائیں، تو اس سے ٹریفک رش میں زیادہ حد تک کمی آسکتی ہے۔ شہر سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ ریڑھیوں کے لیے شہر میں مختلف جگہوں کو مختص کیا جائے۔ شہر کی سڑکوں میں مکان باغ کی طرح ڈائیورشن بنائے جائیں، تو بہتری آسکتی ہے۔
شہر میں ٹریفک میں اہم خلل سبزی منڈی ہے۔ سبزی منڈی والے اپنا مقدمہ سپریم کورٹ میں بھی ہار چکے ہیں اور ٹی ایم اے نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ (پی پی پی) کے ذریعے شہر سے باہر سبزی منڈی تعمیر بھی کی ہے، اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ شہر سے سبزی منڈی اور بعد میں ٹرک اڈوں کو باہر منتقل کیا جائے، تاکہ ٹریفک رواں دواں ہوسکے اور مینگورہ شہر اور سوات کے مظلوم عوام کچھ حد تک سکھ کا سانس لے سکیں۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔