حجاب، مسلم امہ کی خواتین کے تحفظ ا ور ان میں حیا کے اظہار اور اسلامی معاشرے کے لیے پا کیزگی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ جب کہ عورت کی آزادی کا راگ الاپنے والے ترقیِ نسواں کے نام نہاد دعویدار درحقیقت عورت کی حقیقی ترقی و فلاح کے دشمن ہیں۔ ننگی تہذیب کے دلدادہ مادر پدر آزاد ممالک مسلمانوں سے حیا کی رمق ختم کرنے کے لیے کوششوں اور سازشوں میں ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ کہیں داڑھی پر پابندی عائدکی جاتی ہے، تو کہیں حجاب کو دہشت کی علامت قرار دے کر مسلم خواتین کو بے دینی اور بے حیائی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ مسلم خواتین سے تعصب برتتے ہوئے فرانس نے دو ستمبر 2003ء میں اسکارف اور حجاب پر پابندی کا قانون منظور کیا جو کہ مسلم خواتین کے لیے اسلام کے بنیادی قوانین کے منافی اور ناقابلِ قبول تھا۔ اس صورتِ حال میں مسلمان خواتین کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ مغرب زدہ ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لیے عملی طور پر میدان میں نکلیں۔ لہٰذا اس کالے قانون کے خلاف منظم آواز بلند کی گئی، جولائی 2004ء میں لندن میں قائم مسلمانوں کی ایک تنظیم(اسمبلی فار دی پروٹیکشن آف حجاب) کے زیرِ اہتمام مغرب کے غیر اخلاقی اور امتیازی رویے کے خلاف ایک کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں مسلم دنیا کے سیکڑوں محققین، علمائے دین و مدبرین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے اختتامی اعلامیہ میں ہر سال 4 ستمبر کے دن ’’عالمی یوم حجاب‘‘ منانے کا اعلان کیا گیا۔
اس دن کے منانے کا مقصد معاشرے میں حجاب کی اہمیت و اِفادیت کو روشناس کرانا، حجاب سے متعلق خواتین میں شعور بیدار کرنا اور مغربی معاشروں میں حجاب کے خلاف بنائے گئے قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرنا ہے۔ اس دن پوری دنیا کی مسلم کمیونٹی مختلف تقاریب منعقد کرتی ہے۔ یومِ حجاب کے موقع پر الیکٹرانک میڈیا خصوصی پروگرام جب کہ اخبارات، حجاب کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں تاکہ حجاب کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلم خواتین کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک کا خاتمہ ممکن ہوسکے، جب کہ اقوامِ متحدہ یا اس کا کوئی ذیلی ادارہ حجاب یا پردہ کو اہمیت نہیں دیتا۔ اسی لیے اقوامِ متحدہ نے عالمی یوم حجاب کے منائے جانے کے لیے کسی دن کاباضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا۔
مغرب یا مغربی ممالک کے لیے حجاب یا پردہ غیر اہم ہوسکتا ہے لیکن مسلمان عورتوں کے لیے حجاب کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اسلامی فقہ میں حجاب کا تعلق پردے سے ہے جسے شرم و حیا اور اخلاقی اقدار کے تحفظ کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔ ہر ذی شعورانسان اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف حقوقِ نسواں کو پامال نہیں کیا، بلکہ خواتین کو اس قدر عزت و وقار سے نوازا ہے جس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ قرآنِ حکیم کی سورۂ نساء میں ارشادِ باری تعالا ہے: ’’اے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) مومن خواتین سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے بناؤ سنگار کو نامحرم پر ظاہر نہ کریں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادِگرامی ہے کہ ’’ ہر دین کاکوئی نہ کوئی امتیازی وصف ہے اوردینِ اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ’’ حیا اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ ان میں سے اگر ایک بھی اُٹھ جائے، تو دوسرا خود بخوداٹھ جاتا ہے‘‘ یعنی کہ ایمان و حیا لازم و ملزوم ہیں۔‘‘
حجاب کا حکم قرآنِ حکیم کی سورۂ نور کی آیت نمبر 31میں بھی نازل ہواہے۔ ارشاد باری تعالا ہے: ’’ اے نبی(صلی اللہ علیہ و سلم ) مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں۔ بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں۔ ‘‘
ان آیات کے بعد کس مسلمان میں یہ جرأت اور طاقت ہو سکتی ہے کہ وہ حجاب کو صرف کلچر، روایت یا معاشرتی اور سماجی رویہ قرار دے کر مسترد کر دے؟ یہ واضح حکم الٰہی ہے جسے مسلمان عورتیں بڑے افتخار کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر انسان تاریکیوں کو اجالوں میں بدل سکتا ہے۔ اسلام اور اسلامی نظامِ حیات پاک صاف معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور انسان کو اعلا اخلاق و اطوار کا پابند کرتے ہیں۔ اسلام نے جاہلیت کے رسم و رواج اور اخلاق و عادات کو جو ہرقسم کے فتنہ وفساد سے لبریز تھے، یکسر بدل کر ایک مہذب معاشرے کی داغ بیل ڈالی جس کی بدولت ہر انسان کی زندگی میں امن، چین اور سکون درآیا۔
حجاب ہرگز دہشت کی علامت نہیں اور نہ عورتوں کے سماجی مسائل، ملازمت یا تجارت میں حائل ہوتا ہے۔ مسلمان عورت پردہ میں رہ کر ہر ذمہ داری نبھا سکتی ہے۔ اپنے پردے کا خیال رکھتے ہوئے پولیس، ڈاکٹر یا پائلٹ کے فرائض بھی بخوبی سرانجام دے سکتی ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت کا تمام ترحسن وجمال،اس کی تمام زیب و آرائش صرف اس کے شوہر کے لیے ہو، اور اس میں کوئی غیر ہرگز شریک نہ ہو۔ جب کہ عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی کا دعویدار مغربی معاشرہ بھی ہمارے سامنے ہے جہاں ہر طرف ہرقسم کی جنسی آزادی عام ہے۔ مرد عورتوں سے مطمئن نہیں، عورتیں مردوں سے نا آسودہ ہیں۔ جنسی تسکین وآسودگی کے لیے تمام غیر فطری طریقے استعمال کرنے کے باوجود انہیں اطمینان بخش زندگی میسر نہیں۔ مرد مردوں سے، عورت عورتوں سے اور حیوانات تک سے اختلاط وملاپ کے باوجود تمام افراد ایک ہیبت ناک نا آسودگی کا شکار ہیں۔ وہاں کھلے عام ہرقسم کی بے پردگی، فحاشی، عریانی کے باوجود جوبے چینی اور بے کلی پائی جاتی ہے، اسلام اپنے ماننے والوں کو ان تمام خرافات و خرابیوں سے بچاتا ہے اور بچے رہنے کی تلقین کرتا ہے۔
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔