’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ نامی مقبول سوشل میڈیائی صفحہ پر ایک خوبرو خاتون کی تصویر مع خبر نظرسے گزری۔ تصویر بھلی معلوم ہوئی جس میں ایک تیکھے نین نقش والی خاتون کی مہین مسکراہٹ کسی بھی جمالیاتی حس رکھنے والے کی ’’رگِ ذوق‘‘ پھڑکانے کے لیے کافی و شافی ہے۔ اس لیے اس کا جائزہ لیا۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے:’’ایک خوش شکل خاتون جس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہے، ٹریک سوٹ پہنے اپنے بائیں ہاتھ میں حالیہ اولمپکس مقابلوں میں جیتنے والا سلور میڈل (Silver Medal) پکڑا ہے، جب کہ دائیں ہاتھ میں ایک پیارا گلدستہ لیے ہنس رہی ہیں۔ گل دستہ زرد پھولوں پر مشتمل ہے۔‘‘
دوسری نظر جیسے ہی اس کے ساتھ دی گئی خبر پر پڑی، تو خاتون پر آیا ہوا پیار ایک طرح سے عقیدت میں بدل گیا۔ سرِ دست خبر ملاحظہ ہو: ’’ٹوکیو اولمپکس میں سلور میڈل لینے والی پولینڈ کی اس عظیم عورت (Maria Andrejczky) نے ایک بچے کے دل کے آپریشن کے لیے اپنے میڈل کی نیلامی کا اعلان کیا۔ پولینڈ کی ایک کمپنی نے اسے 1 لاکھ 25 ہزار ڈالر میں خریدا اور اسے واپس بھی کردیا۔‘‘
جی ہاں! یہ وہ خبر ہے، جو ہمارا میڈیا اگر چھاپنے کی غلطی کر بھی لے، تو پڑھنے کی زحمت کون اُٹھائے؟
کیوں کہ ہمیں تو مینارِ پاکستان پر ہوس کے ماروں کی کسی خاتون کے جسم کو نوچنے کی خبر ہی بھلی لگتی ہے۔ پھرہر ایسی خبر کے بعد دو گروپوں میں بٹ کر اپنی دلیل سے مخالف کو چاروں شانے چھت کرنے کی مشق بھلی لگتی ہے۔ ایسے میں پولینڈ کی "Maria Andrejczky” اور اس کا نیک عمل کیوں کر ہماری توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟
یہ مَیں بہک کر کہاں نکل گیا……!
ویسے قارئینِ کرام! کیا خیال ہے، دونوں میں زیادہ داد کا مستحق کون ہے؟ وہ خاتون ایتھلیٹ جو زندگی کا ایک بڑا حصہ جولین تھرو (Javelin Throw) میں مہارت حاصل کرنے اور پھر دنیا کے سب سے بڑے مقابلوں (اولمپکس) میں ملک کی نمائندگی کرنے اور سلور میڈل حاصل کرنے کے بعد اُسے ایک ننھی جان کو بچانے کی خاطر نیلام کرنے کا عزم کر بیٹھیں…… یا پھر وہ کمپنی داد کی مستحق ہے جس نے خاتون کے جذبہ کو دیکھ کر اولاً نیلامی میں حصہ لیا، ثانیاً بولی میں ایک سلور میڈل کے حصول کے عوض 1 لاکھ 25 ہزار ڈالر کی خطیر رقم داو پر لگائی۔ ثالثاً مذکورہ رقم بھیجنے کے ساتھ خاتون کو اس کا جیتا ہوا میڈل بھی واپس کیا۔
مرزا غالبؔ کے بقول
’’کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا‘‘
یہ فیصلہ قارئینِ کرام، آپ ہی پر چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ خبر پڑھنے کے بعد مذکورہ خاتون ایتھلیٹ کے بارے میں جاننے کی آتشِ اشتیاق بھڑک اُٹھی۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد "CNN” کی ایک رپورٹ ہاتھ لگی جس کے مطابق خاتون کو مذکورہ میڈل ٹوکیو اولمپکس 2020ء میں ملا ہے۔ اس طرح جس ننھی جان کے دل کا آپریشن ہونا تھا، وہ 8ماہ کا ایک شیر خوار بچہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق خاتون کی عمر 25 سال ہے۔ انہوں نے جان لڑا کر جولین تھرو مقابلہ میں فائنل تک رسائی حاصل کی جہاں وہ چائینہ کی "Liu Shiying” سے دو میٹر فاصلہ کی کمی پر ہار گئیں مگر اولمپک مقابلوں میں اپنا ’’پہلا سلور میڈل‘‘ جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔
"CNN” کی 19 اگست 2021ء کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق: ’’پچھلے ہفتے فیس بک پر "Maria Andrejczky” ایک پوسٹ شائع ہوئی جس میں وہ ایک شیرخوار بچے "Miloszek Malysa” کے دل کے آپریشن کے لیے فنڈ جمع کرنے کی خاطر اپنے میڈل کو نیلام کرنا چاہتی ہیں۔‘‘
رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ شیر خوار بچے کی ماں "Monika” کے بقول بچے کا علاج پولینڈ میں ممکن نہ تھا اور اسے ہر حال میں سرجری کے لیے "Stanford” (کیلی فورنیا) لے جانا مقصود تھا۔
رپورٹ کے مطابق آدھے پیسے جمع ہوگئے تھے۔ آدھے کے لیے فنڈ ریزنگ کا عمل جاری تھا۔ اتنے میں پولینڈ کی ایک سپر مارکیٹ کی چین "Zabka” نیلامی میں جیت جاتی ہے اور پورے 1 لاکھ 25 ہزار ڈالر کے عوض نیلامی کے لیے پیش کیا جانے والا میڈل حاصل کرلیتی ہے۔ "Maria Andrejczky” اس موقع پر "Zabka” کو لکھتی ہیں: ’’یہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ مَیں اپنا میڈل آپ کے حوالے کر رہی ہوں۔ یہ میڈل میرے لیے میری جد و جہد، یقین اور خوابوں کے پیچھے بھاگنے اورانہیں سچ کر دکھانے کی نشانی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ یہی میڈل آپ کے لیے زندگی کی نشانی ہوگا، وہ زندگی جس کے لیے ہم دونوں جرأت کے ساتھ لڑے۔‘‘ (یہاں خاتون کا زندگی سے مطلب وہ آٹھ ماہ کا شیر خوار بچہ ہے)
رپورٹ کے مطابق”Maria Andrejczky” کو حیرت کا سامنا اُس وقت کرنا پڑتا ہے جب "Zebka” کی انتظامیہ رقم بھیجنے کے ساتھ میڈل بھی اس پیغام کے ساتھ واپس کر دیتی ہے کہ ’’ہمیں اپنی اولمپین کے خوب صورت اور انتہائی اچھے اشارے نے ہلا کر رکھ دیا۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ بیمار "Miloszek” کے لیے اکھٹی کی جانے والی رقم میں معاونت فراہم کریں۔ اس کے ساتھ ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ٹوکیو اولمپکس میں حاصل کیا جانے والا میڈل مس ماریہ کے ساتھ ہی رہے گا۔ ان کے اس عمل نے ثابت کیا ہے کہ وہ کتنی عظیم ہیں!‘‘
رپورٹ کے مطابق مذکورہ پیغام پولینڈ کی سپر مارکیٹ کی چین نے فیس بُک پر دیا تھا۔
قارئین کرام! اس پوری کہانی کے بعد شائد یہ رقم کرنا بے تکی سی بات ہو کہ اس سے بحیثیتِ انسان ہمیں کیا سبق لینا چاہیے! بابا جی اکثر ایسے موقعوں پر کہتے ہیں کہ ’’بچے! یہ توفیق کی بات ہوتی ہے۔‘‘
بقولِ گلزارؔ بخاری :
دِیے سے یوں دِیا جلتا رہے گا
اُجالا پھولتا پھلتا رہے گا
نہیں ہے بانجھ آوازوں کی دھرتی
صداؤں کا نسب چلتا رہے گا
سکوں ہو بحر میں یا ہو تلاطم
گہر تو سیپ میں پلتا رہے گا
زمیں پر بارشیں ہوتی رہیں گی
سمندر اَبر میں ڈھلتا رہے گا
نہ باز آئے گا غفلت سے بھی انساں
کفِ افسوس بھی ملتا رہے گا
چھپاؤ گے اگر گلزارؔ خود کو
وجود اپنا تمہیں کھلتا رہے گا
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔