مَیں اس وقت نویں جماعت میں پڑھتا تھا، جب مجھے والد صاحب نے نئی سائیکل لے کر دی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نئی سائیکل ملنے کی خوشی نے مجھے کئی ہفتے بلکہ کئی مہینے سرشار رکھا۔ یہ محض ایک سائیکل نہیں تھی بلکہ گھومنے پھرنے کی آزادی اور آوارگی کا ایک وسیلہ تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی طالب علم کے پاس کیلکولیٹر یا سائیکل کا ہونا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت پاکستان میں جگہ جگہ سائیکلوں کی مرمت، پنکچر لگانے اور کرائے پر سائیکل حاصل کرنے کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ موٹر سائیکل سواری کا رواج بھی عام ہو رہا تھا، مگر موٹر سائیکل کی خریداری ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی۔ سکولوں، کالجوں کے بہت سے اساتذہ اور دفتروں میں کام کرنے والے بیشتر لوگ سائیکل پر آیا جایا کرتے تھے۔ سائیکل سواری اور سادگی لازم و ملزوم تھی لیکن پھر رفتہ رفتہ سادگی کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے سے سائیکل سواری بھی متروک ہوتی چلی گئی اور سائیکل کو غریبوں اور مجبوروں کی سواری سمجھا جانے لگا۔ زندگی کی تیز رفتاری نے سائیکل سواروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
لندن آنے کے دو برس بعد مجھے ڈنمارک کے دارالحکومت ’’کوپن ہیگن‘‘ جانے کا موقع ملا، تو مَیں وہاں سائیکل سواروں کی بہتات دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ہر سڑک کے دونوں طرف سائیکل سواروں کے لیے خصوصی ٹریک بنے ہوئے تھے جہاں نہ تو کوئی پیدل چل سکتا تھا اور نہ کوئی موٹر سائیکل سوار داخل ہو ہی سکتا تھا۔ ان سائیکل ٹریکس پر عورتیں، مرد، بوڑھے اور بچے اپنی اپنی سائیکلوں پر رواں دواں نظر آ رہے تھے۔ خواتین نے اپنی سائیکلوں کے آگے خصوصی ٹوکریاں لگوا رکھی تھیں جن میں وہ اپنے چھوٹے بچوں کو بٹھا کر بیلٹ سے باندھ دیتیں (جس طرح ہوائی جہاز میں مسافر کو بیلٹ باندھی جاتی ہے ) اس طرح بچے بھی سائیکل سواری سے لطف اندوز ہوتے رہتے اور مائیں بھی ان کو بہلاتیں اور مختلف مناظر کے بارے میں بتاتی بھی رہتیں۔
ڈنمارک میں ہر سائیکل سوار ٹریفک کے ضابطوں کی سختی سے پابندی کرتا ہے۔ ٹریفک لائٹ پر رُکنے، سر پر چھوٹا ہیلمٹ پہننے اور سیفٹی کا خیال رکھنے کو ہر سائیکل سوار اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ خریداری کے لیے سائیکل سواروں نے اپنی سائیکلوں کے آگے یا پیچھے بھی ٹوکریاں لگوا رکھی ہوتی ہیں۔ ڈنمارک میں 56 فیصد لوگ سائیکل استعمال کرتے ہیں جن میں سے 30 فیصد لوگ ہر روز اپنے کام پر آنے اور خریداری کے لیے سائیکل سواری کرتے ہیں جن میں ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، افسران، تاجر، طالب علم، سیاستدان، وکیل، جج یعنی ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ سائیکل سواری کے معاملے میں کسی قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں۔ برف باری اور موسلادھار بارش میں بھی یہ لوگ سائیکل سواری جاری رکھتے ہیں۔ دراصل وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ سائیکل سواری صحت کے لیے مفید اور ماحولیاتی آلودگی میں مزید اضافے کو روکنے کا اہم ذریعہ ہے۔
ویسے تو میں مشاعروں میں شرکت اور دوستوں اقبال اختر، فواد کرامت، صفدر علی آغا، کامران اقبال اعظم اور ابو طالب سے ملنے بارہا کوپن ہیگن گیا ہوں لیکن چند برس پہلے جب اقوامِ متحدہ نے ڈنمارک کے لوگوں کو دنیا میں سب سے زیادہ خوش رہنے والی قوم قرار دیا، تو مَیں اور میرے سالیسٹر دوست نسیم احمد ایک بار پھر ڈنمارک گئے اور مختلف شہروں میں گھومتے پھرتے رہے، تاکہ اندازہ کرسکیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ خوش رہنے والی قوم کی خوشی کے اسباب کیا ہیں؟ چار روز کی سیاحت اور مقامی لوگوں سے ملنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ڈینش قوم کے سب سے زیادہ خوش رہنے کی وجوہات میں سادگی، کسی کی ٹوہ میں نہ رہنا، بے فکری، سائیکل سواری اور نفسیاتی مسائل سے ہر ممکن حد تک آزاد رہ کر زندگی گزارنا ہے۔
سائیکل سواری اب ڈنمارک کے لوگوں کی سماجی زندگی کا اہم حصہ بن چکی ہے۔ پورے ملک میں شاپنگ سنٹروں، دفتروں، ہسپتالوں، تفریحی مقامات، پارکوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بڑے بڑے سائیکل اسٹینڈز پر سیکڑوں کی تعداد میں دو پہیوں والی اس سواری کو کھڑے دیکھ کر مجھے پاکستان کے سینما گھروں کے سائیکل اسٹینڈ بھی یاد آئے، جب ایک زمانے میں سیکڑوں لوگ سائیکل پر فلم دیکھنے آتے تھے اور فلم ختم ہونے پر سائیکل اسٹینڈ پر فلم بینوں کا جم غفیر دکھائی دیتا تھا۔
پاکستان میں آلودگی اور موٹاپے میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اس کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ عام لوگ موٹر سائیکل کی بجائے سائیکل سواری کی عادت اپنائیں جس سے ان کے اخراجات میں کمی اور صحت میں بہتری آئے گی۔
پورے یورپ میں سائیکل ایک مقبول سواری ہے۔ اس معاملے میں ہالینڈ کے لوگ پہلے نمبر پر ہیں جہاں 71 فیصد لوگ سائیکل سواری کرتے ہیں اور ان میں سے 43 فیصد ایسے ہیں جو ہر روز سائیکل چلاتے اور اپنے روزمرہ کے امور نمٹاتے ہیں۔
اس دو پہیوں والی سواری کی ایجاد اور ارتقا کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ پہلی سائیکل 1817ء میں ایک جرمن میکینک نے ایجاد کی جس کا تعلق ’’مین ہائم‘‘ سے تھا۔ یہ سائیکل پیڈلز کے بغیر تھی۔اس کا فریم لکڑی کا تھا اور اسے پہلی بار 1818ء میں فرانس کے شہر پیرس میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ 1860ء میں پیڈل والی سائیکل بنائی گئی اور 1886ء تک سائیکل نے ارتقائی مراحل طے کر کے موجودہ شکل اختیار کی۔ اب پرتگال، یورپ کے اندر سائیکل سازی میں پہلے نمبر پر ہے جب کہ اٹلی کا نمبر دوسرا ہے، جہاں بالترتیب 27 لاکھ اور 21 لاکھ سائیکلیں ہر سال تیار کی جاتی ہیں۔
یورپ کے دیگر ملکوں کے دارالحکومتوں کی طرح لندن اور خاص طور پر سنٹرل لندن میں موٹر گاڑیوں کے رش اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے نئے نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ سڑکوں کی چوڑائی کو کم کرکے سائیکل لین یا سائیکل ٹریکس بنا لیے گئے ہیں۔ کرائے پر سائیکل حاصل کرنے کے لیے جگہ جگہ اسٹینڈ بنا دیے گئے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران میں سنٹرل لندن میں کاروں کی آمد و رفت کی تعداد میں نمایاں کمی اور سائیکل سواری کے رجحان میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ وسطی لندن میں بڑے بڑے برطانوی سیاست دانوں سمیت بہت سے نامور لوگ بھی سائیکل سواری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ کار چلانے والوں کو جگہ جگہ سائیکل لین اور سائیکل سواروں کی وجہ سے بڑی الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر جہاں بات ماحولیاتی آلودگی کی آ جائے، تو وہاں سائیکل چلانے والوں کی سہولت کو اولیت دی جاتی ہے۔
یورپ بھر میں جیسے جیسے ماحولیات کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے سائیکل سواری کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ پاکستان میں سائیکل کو جنٹلمین کی سواری سمجھتے تھے اور سوار اپنی سواری کا بہت خیال رکھتے تھے۔ خاص طور پر پنجاب میں کام کرنے والے پشتون بھائی اپنی سائیکل کو بہت سجاتے اور اس کی حفاظت کرتے تھے۔ میلوں ٹھیلوں اور سرکس کے موقع پر کئی لوگ پورا ہفتہ مسلسل ایک بڑے دائرے میں سائیکل چلانے کا ریکارڈ قائم کرتے، غروبِ آفتاب کے بعد چلتی ہوئی سائیکل پر مختلف کرتب دکھاکر نوٹوں کی شکل میں داد پاتے اور جس روز انہوں نے مسلسل سائیکل چلانے کا اختتام کرنا ہوتا، اس دن مقامی لوگوں کا ہجوم انہیں دیکھنے آتا اور ان کے فن کو سراہتا۔ معلوم نہیں اب بھی یہ سائیکل سوار ہیرو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں یا دیگر ہنرمندوں کی طرح ماضی کی دھول میں گم ہوگئے ہیں۔
پاکستان میں جب تک کوئی چیز فیشن نہ بن جائے اسے مقبولیت حاصل نہیں ہوتی۔ اچھی بات یہ ہے کہ کھانا پکانے کے ہنر کی طرح اب سائیکل سواری کو بھی فیشن سمجھا جانے لگا ہے۔ لوگ اب امپورٹڈ سائیکل کی سواری کو فیشن کے طور پر اپنا رہے ہیں۔ ایک زمانے میں جنرل ضیاء الحق نے سائیکل سواری کو رواج دینے کے لیے گھر سے دفتر جاتے ہوئے سائیکل سواری کی تصاویر اخبارات میں شائع کروائیں لیکن بدقسمتی سے لوگوں کی اکثریت نے ان کی پیروی کرنے کی بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دی اور پاکستانی قوم گیارہ برس کے لیے کئی معاملات میں پیدل ہو گئی۔ پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سائیکل کو انتخابی نشانات کی فہرست میں شامل کر لیا اور اب ہمارے سیاست دان سائیکل کو صرف انتخابی نشان کے طور پر ہی استعمال میں لاتے ہیں۔
برطانیہ میں آج بھی بڑے ہونے والے بچوں کو تحفے میں سائیکل دی جاتی ہے اور وہ سائیکل سواری سے خوب لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سمیت پارلیمنٹ کے بہت سے اراکین اور مختلف کونسلوں کے میئر، پروفیسر اور ڈاکٹر سائیکل سواری کے شوقین ہیں۔ پاکستان میں ہمارے سیاست دان اور اربابِ اختیار سائیکل چلانا تو کجا سائیکل کی سواری کرنے والوں سے ملنا تک گوارا نہیں کرتے۔ برطانیہ میں سائیکل چلانے والے ملک چلا رہے ہیں جب کہ پاکستان میں ملک چلانے والوں کو سائیکل تک ڈھنگ سے چلانا نہیں آتی۔ ایک صاحب نے پاکستانی پارلیمنٹ کے سامنے اپنی سائیکل کھڑی کی، تو پولیس والے نے کہا کہ یہاں اپنی سائیکل مت کھڑی کرو۔ یہاں سے وزیر اور پارلیمنٹ کے ارکان گزرتے ہیں۔ وہ صاحب بولے فکر کی کوئی بات نہیں، مَیں نے اپنی سائیکل کو تالا لگا دیا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں نے ملک میں امن و امان کے حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ غریب کے علاوہ کوئی اور یہاں سائیکل سواری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اسلام آباد، کراچی، لاہور یا کسی اور بڑے شہر میں ہمارے ملک کا کوئی وزیر یا رکنِ پارلیمنٹ بغیر سیکورٹی کے سائیکل سواری کرسکتا ہے؟ مَیں نے پہلے بھی اپنے ملک کے سیاست دانوں کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کی مثال چچا چھکن کی اس سائیکل کی طرح ہے جس کی گھنٹی کے علاوہ سب کچھ بجتا ہے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔