سیاسی جوڑ توڑ اور اتحاد پارٹی سیاست کا حصہ ہے۔ پاکستان، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں سیاسی اتحاد کا عروج و زوال سیاسی مقاصد کے حصول تک محدود ہے۔ متحدہ اپوزیشن پارٹیز (سی او پی) 1964ء، ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈی اے سی) 1968ء، پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) 1977ء، تحریک برائے بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) 1983ء، اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) 2002ء اور موجودہ پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) پاکستان میں اقتدار کے لیے سیاسی اتحاد کے عروج و زوال کی زندہ مثالیں ہیں۔
بڑی سیاسی جماعتیں اقتدارکے حصول کے لیے روایتی اقتدار کی سیاست کی طرف گام زن ہو جاتی ہیں۔ اگرچہ پی ڈی ایم میں شامل اکثر جماعتیں اقتدار کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان کا یہ اتحاد کچھ مختلف ضرور تھا، مگر اقتدار میں شامل پارٹیاں استعفا دے کر خالص اپوزیشن کا رول نبھانے کے لیے تیار تھیں اور نہ ہیں۔ دراصل یہ اتحاد اقتدار میں اپنے حصے کی وسعت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے جو ماضی کی طرح مفادات کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی مفاہمتی سیاست کے نظریہ کے تحت مخلوط طرز کی پی ڈی ایم سے علاحدگی اختیار کر چکی ہے اور دیگر پارٹیوں کا جوش و خروش بھی ماند پڑچکا ہے۔ پاکستان میں چند ہی مثالیں ملتی ہیں جہاں احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے حکومت کو رخصت کیا گیا ہو۔ اگرچہ پی ڈی ایم نے دو روایتی حریفوں ن لیگ اور پی پی کو مختصر عرصے کے لیے اکھٹا کر لیا مگر یہ اتحاد زیادہ دیر نہ چل سکا۔ پی ڈی ایم نے اپنی بقا کے علاوہ کوئی کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیا۔
پی ٹی آئی حکومت کو سب سے بڑا خطرہ مہنگائی کے طوفان سے ہے جو آئے روز شدت اختیار کر تا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم میں اختلافات کی وجہ سے گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر انتخابات میں پی ڈی ایم طرز کی کشمیر ڈیموکریٹک مومنٹ (کے ڈی ایم) بنانے میں ناکام رہی۔ اگر پی ڈی ایم متحد رہتی، تو کشمیر میں ن لیگ، پی پی اور ایم سی مل کر پی ٹی آئی کا پتا صاف کر سکتی تھی، مگر ایسا ہوا نہیں۔ ن لیگ گلگت بلتستان کی طرح کشمیر میں بھی برسرِاقتدار تھی مگر پی ٹی آئی نے اس کا صفایا کر تے ہوئے اسے محض چار سیٹوں تک محدود کر دیا ہے۔ ن لیگ کی طرف سے حکومت مخالف تحریک چلانا خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔ پیپلز پارٹی پاکستان میں پی ٹی آئی کے ساتھ خفیہ اتحاد کی بدولت گیارہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ آزادکشمیر الیکشن سے پہلے ہی عیاں تھا، کیوں کہ پی ٹی آئی کی ساری بیٹنگ ن لیگ کے خلاف تھی۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ ن لیگ کے اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریہ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ڈیل کے بدلے ڈھیل ملی ہو اور دوسال بعد اسلام آباد میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک بنا کر آزادکشمیر کی حکومت پیپلز پارٹی کے حوالے کر دی جائے۔ ایم سی کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ پانچ سال ایک سیٹ پر ہی گزارہ کرنا ہوگا۔
پی ٹی آئی آزادکشمیر کو فی الوقت کسی بڑے خطرے کا سامنا تو نہیں، تاہم محبت، جنگ اور سیاست میں کب کیا ہو جائے؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ کسی بڑی سیاسی پارٹی نے کشمیر ایشوپر الیکشن لڑنا تو درکنار، کشمیر کو بطور سیاسی نعرے کے بھی استعمال نہیں کیا۔ اگر پی ٹی آئی کشمیر ایشو سے متعلق کوئی غلطی نہیں کرتی ہے، تو کم از کم مرکز میں اقتدار کی تبدیلی تک پی ٹی آئی کو کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ن لیگ اور پی پی نے کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کے پروپیگنڈے پر جو سیاست کی ہے، اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ پی ٹی آئی کشمیر کے حوالے سے کوئی ایسی غلطی کرے، تاکہ انہیں کشمیر کی سالمیت اور شناخت کی ڈھال مل جائے۔
آزادکشمیر الیکشن نے انتخابات کے ناقص نظام کی بھی قلعی کھول دی ہے۔ اب تک ہم کوئی ایسا انتخابی نظام لانے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کے نتائج سب پارٹیوں کے لیے قابل قبول ہوں۔ ہارنے والی پارٹی ہمیشہ کی طرح دھاندلی کے الزامات کا سہار ا لیتی ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی خوش ہے16 سیٹوں کے وعدے پر 11 ملیں۔
الیکشن کمیشن ضابطۂ اخلاق کو لاگو کروانے میں پوری طرح ناکام رہا۔ بعض حلقوں میں پارٹیوں نے اپنے عہدیداروں کے بیٹوں کو ضلعی الیکشن آفیسر تعینات کر وا رکھا تھا۔ رشوت، تشدد، بلیک میلنگ، سیاسی پیش کش، دھمکیاں، برادری ازم، نسل پرستی اور سیاسی ایڈجسٹمنٹ وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔ بلاول بھٹو اورمریم نواز کی محنت گلگت بلتستان کی طرح رائیگاں گئی۔ اب پی ٹی آئی کا مستقبل مرکز میں حکومت کی تبدیلی سے وابستہ ہے۔ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی آزادکشمیر میں سیاسی تبدیلی آجانی ہے۔
پی ٹی آئی آزادکشمیر کو فی الوقت ایک بڑا چیلنج وزارتوں کی دانشمندانہ تقسیم کا ہے، تاکہ مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود بھی پی ٹی آئی اپنا وجود قائم رکھ سکے۔ پی ٹی آئی کو یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگی کہ برادری کی بنیاد پر دیے گئے ٹکٹ ان کے لیے مشکل کھڑی کرسکتے ہیں۔ برادری اور سفارش کی بنیاد پر دیے گئے ٹکٹ ہی پی ٹی آئی میں فاروڈ بلاک کی داغ بیل ڈالیں گے۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر قیادت کو مسٹر خان کی طرف سے ملنے والی تھپکی آزادکشمیر میں حکومت کے تسلسل کے لیے ناکافی ہے۔ آزادکشمیر الیکشن مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتا تھا، مگر تما م پارٹیوں نے کشمیر ایشو کوسیاست کا محور اور مرکز بنانے کے بجائے برانڈیڈ سیاست کا سہارا لیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا۔ تما م سیاسی پارٹیوں کو الیکشن اصلاحات کی طرف توجہ دیتے ہوئے الزام در الزام کی سیاست کو دفن کرنا چاہیے، مگر نظام اور اصلاحات کی طرف یہ کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ جلد یا بدیر یہ بوسیدہ نظام ہی ان کے لیے کوئی راہ نکال لے گا۔ روایتی حریف پی پی اور ن لیگ کی جانب سے پی ٹی آئی کو اپنے خلاف کسی متحدہ اپوزیشن کا کوئی خطرہ نہیں۔ پی پی پاکستان کی طرح کشمیر میں بھی ن لیگ کو اپوزیشن کے اہم عہدوں سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی، پی پی اور اسٹیبلشمنٹ تینوں نے مل کر ن لیگ کی بیساکھیاں توڑنے کاتہیہ کر رکھا ہے۔
ماضی میں بھی آزادکشمیر میں مفادات کی سیاست کی گئی ہے۔ کسی بھی اپوزیشن پارٹی نے حقیقی معنوں میں اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے خلاف ن لیگ اور پی پی کے لیے مرکز میں تبدیلی سے پہلے صرف ایک موقع ہے کہ یہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کی تفویض پر پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بنا کرحکومت سازی کی کوشش کریں، مگر یہ دونوں کے لیے فائدے مند نہیں رہے گا۔ کیوں کہ تمام اہم وزارتیں اور عہدے تو فارورڈ بلاک اور دو سیٹوں والے اتحادی لے اُڑیں گے اور ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ یہ اتنا آسان بھی نہیں۔ اگر ن لیگ اور پی پی، پی ڈی ایم میں ایک ساتھ ہوتیں، تو اس وقت صورتِ حال بالکل مختلف ہوتی۔
حکومت سازی کے مکمل ہونے تک کا عرصہ پی ٹی آئی کے لیے کافی آزمائش طلب ہے۔ خاص کر ان حلقوں میں صوابد یدی عہدوں کے ذریعے وزارتیں دینی اشدضروری ہیں، جہاں سے ن لیگ اور پی پی نے میدان مار ا ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کی نہ صرف گرفت مضبوط ہوگی بلکہ اپوزیشن کے لیے حکومت مخالف عوامی مہم چلانے میں معاون ثابت ہوگی۔ پی ٹی آئی کے آزادکشمیر میں مستقبل کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ وہ دو سال کے قلیل عرصہ میں مرکز سے کتنے زیادہ فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے دو سال کے اندر مرکز سے خاطر خواہ فنڈ حاصل کیا اور شفاف استعمال کو یقینی بنایا، تو شائد مرکز میں حکومت کی تبدیلی آزادکشمیر میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا باعث نہ بن سکے۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔