نقلِ مکانی

اس مرکب کو عام طور پر بغیر اضافت (زیر کے بغیر) یعنی ’’نقل مکانی‘‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ذرا سید امین اشرفؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
ہے کیوں نقلِ مکانی یہ ہوائے تازہ تر کیا ہے؟
سمجھ میں کچھ نہیں آتا، اِدھر کیا ہے اُدھر کیا ہے؟
اگر اس شعر میں ’’نقلِ مکانی‘‘ کو ’’نقل مکانی‘‘ پڑھا جائے، تو وزن کا مسئلہ آڑے آتاہے۔
نور اللغات اور فرہنگِ آصفیہ دونوں میں مرکب اضافت کے ساتھ ’’نقلِ مکاں‘‘ درج ہے نہ کہ ’’نقل مکاں‘‘ اور اس کے معنی ’’ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا‘‘ کے ہیں۔ نیز دونوں میں نسیمؔ کا یہ شعر بھی حوالہ کے طور پر درج ہے:
ایک صورت پر رہی صورت نہ مانندِ خیال
جب ہوا ہستی مجھے نقلِ مکاں پیدا ہوا
اس طرح ایک اور شعر ملاحظہ ہو، جس کا شاعر نامعلوم ہے :
سر و سامان تو سب جا چکا ہے
بس اِک نقلِ مکانی رہ گئی ہے