آج کل دنیا ترقی کرچکی ہے اور کمپوٹر کا دور ہے، توہم پرستی اور رجعت پسندی کی جگہ علم اور سائنس نے لے لی ہے، لیکن آج سے 30، 35 پینتیس سال پہلے تک علم و عقل کا وہ عمومی معیار نہ تھا۔ سو لوگوں میں زیادہ تر جو کم علم دیہاتی لوگ تھے، وہ جعلی پیروں، فقیروں اور گنڈا تعویذ والوں کے پاس زیادہ جاتے تھے۔ اسی وجہ سے ان پریشان حال لوگوں کے حالات کا فائدہ اٹھانے واسطے بہت سے فنکار اور مداری مختلف قسم کے حربے اختیار کرکے پیسا بٹور لیتے تھے۔ ان میں سے ایک قسم فال نکالنے والے توتے کے مالکان بھی تھے۔ یہ دو قسم کے توتے رکھتے تھے۔ ایک را توتا ہوتا کہ جس کے گلے کے اردگرد لال رَنگ کی رِنگ سی قدرتی طور پر بنی ہوتی کہ جس کو عام فہم میں ’’گانی‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان توتوں کی قدرتی طور پر یہ خاصیت ہوتی کہ اگر ان پر تھوڑی بہت محنت کی جاتی، تو یہ انسان کی طرح کلام کرلیتے تھے۔ جب کے اس کے ساتھ مزید تین چار کاٹھ توتے ہوتے کہ جن کی ’’گانی‘‘ کالے رنگ کی ہوتی۔ وہ انسان کی طرح بول نہیں سکتے، بس ٹیں ٹیں ہی کرتے رہتے ہیں۔ اب اس فن کار شخص کا طریقۂ واردات یہ ہوتا کہ جب اس کے پاس کوئی حالات کا مارا دکھی سادہ لوح شخص جاتا، تو وہ ایک معقول رقم طے کرکے ’’را توتے‘‘ کے سامنے کچھ پہلے سی لکھی پرچیاں رکھتا اور توتے کو کہتا کہ وہ صاحب کی تقدیر کی پرچی اٹھائے۔ عمومی طور پر ان پرچیوں پر سو فی صد کوئی اچھی پیشین گوئی ہی درج ہوتی۔ توتا پرچی اٹھا کر مالک کو دیتا۔ مالک ایک خاص مسکراہٹ کے ساتھ باآوازِ بلند اس کو متعلقہ پریشان حال شخص کو سناتا۔ جوں ہی مالک ایک خوشگوار مستقبل کی پیشین گوئی سناتا، تو ’’را توتا‘‘ فوراً مالک کے ادا کیے گئے الفاظ دھراتا اور ساتھ ہی ’’کاٹھ توتے‘‘ مالک کے اشارے یا ممکن ہے ان کو کوئی ضرب لگائی جاتی ٹیں ٹیں کرنا شروع کر دیتے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ مذکورہ پریشان حالات کا شکار انسان بہت جلد اپنی تکالیف سے آزاد ہو کر روشن مستقبل میں داخل ہونے والا ہے۔ اس مایوس شخص واسطے مالک سے زیادہ توتوں کی تصدیق باعثِ اطمینان ہوتی۔ یوں چند لمحوں واسطے وہ پرسکون اور نئی امید کی امنگ کے ساتھ خوشی خوشی توتے والے کو پیسے ادا کر دیتا اور مالک کسی نئے شکار کی آمد کا انتظار شروع کر دیتا اور یہ کھیل جاری رہتا۔ کچھ کو وقتی سکون مل جاتا اور کچھ کو آسان روزگار۔
قارئین، میرے ذہن میں وہ توتے والے آج اس وجہ سے آئے کہ جب مَیں نے پاکستان کے پیچیدہ سیاسی حالات کا جائزہ لیا، خاص کر ہماری قومی سیاسی جماعتوں کا، تو آپ یقین کریں مجھے چندلمحات کے لیے ایسا لگا کہ جیسے ہماری سیاسی جماعتوں کے حالیہ طریقۂ واردات بالکل وہی ہے۔ البتہ یہ بات عمومی ہے اور فطرت کے قوانین کے مطابق استثنا تو ہر معاملے اور ہر جگہ ہوتا ہی ہے۔ سو بے شک اس کا اطلاق سو فی صد تو نہیں ہو سکتا، نہ ہوتا ہے۔ لیکن عمومی طور پر ہمارا سیاسی رویہ شاید ایسا ہی ہے۔
آئیں، ذرا ایک تصوراتی دنیا کی سیر کریں۔ آپ تصور کرلیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا کردار بالکل اس توتے والے فنکار کی طرح ہے اور عوام کا کردار اس حالات کے مارے سادہ لوح انسان کا۔ اب یہ سربراہ جب عوام کی پریشانی کو بھانپ لیتے ہیں، تو عوام کی دل لگی کے لیے کچھ اعلانات، کچھ پالیساں دیتے ہیں۔ آج کل کشمیر کی الیکشن مہم دیکھ لیں۔ اب ان جماعتوں کی دوسرے درجے کی قیادت کا کردار بالکل ’’را توتوں‘‘ کی طرح ہے کہ جو اپنے یا اپنے سربراہ کے اشارے پر میڈیا خواہ ’’مین سٹریم الیکٹرانک چینل‘‘ ہوں، اخبارات و جرائد ہوں یا سوشل میڈیا، وہاں پر عین مالک کی منشا کے مطابق سربراہ کی پالیسی کو نمک مرچ لگا کر پیش کرتے ہیں۔ اور پھر خیر سے ہمارے سیاسی کارکنان کا کردار فوراً ’’کاٹھ توتوں‘‘ والا بن جاتا ہے یعنی جانے بنا بس سوشل میڈیا پر ٹیں ٹیں شروع ہوجاتی ہے۔ جماعتی سربراہان واسطے سب سے زیادہ سود مند یہ کارکنان کی ٹیں ٹیں ہوتی ہے۔
یہاں پر بات واضح کرنے کے لیے ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ سابق وزیرِاعظم محترم نواز شریف پر کرپشن کے بہت سنگین الزامات ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ الزامات سو فیصد سچ ہیں یا مکمل طور پر انتقامی کارروائیوں سے مبرا، لیکن بہرحال الزامات کی ایک طویل فہرست ہے۔ اب علمِ سیاسیات ہو یا عام سا اخلاقی رویہ، ان الزامات کا مسلم لیگ ن کے کارکنان سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ ان کی طرف سے بس اتنا مطالبہ ہو کہ نواز شریف صاحب کے مقدمہ کا ٹرائیل بالکل صاف شفاف ہونا چاہیے اور میاں صاحب کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقعہ ملنا چاہیے، لیکن اس کے باجود اگر کوئی الزام میاں صاحب پرثابت ہوجاتا ہے، تو پھر ان کو معروضی حالات اور مروجہ قوانین کے مطابق سزا دی جائے اور اگر کچھ ثابت نہیں ہوتا، تو ان کو باعزت رہاکر کے ان کا مقام بحال کیا جائے۔ دنیا کے مہذب جمہوری معاشروں میں یہی ہوتا ہے، بلکہ کسی معقول الزام کے بعد جماعت خود سربراہ سے استعفا طلب کرلیتی ہے، لیکن ہمارے حالات کیا ہیں؟ اِدھر حکومت نے یا کسی ادارے نے میاں صاحب پر الزامات کو بیان کیا۔ اَدھر مریم شریف نے بس اتنا کہا کہ نواز شریف کے خلاف انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔ بس پھر کیا رات کو ٹی وی پر ’’را توتے‘‘ احسن اقبال، مریم اورنگزیب، خواجہ آصف، سعد رفیق وغیرہ آگئے اور مریم شریف کے مذکورہ بیان کی اس صفائی سے تشریح شروع ہوگئی کہ جس کا ادراک شاید مریم شریف کو خود بھی نہ ہو۔ اب جب رات کو ’’را توتوں‘‘ نے یہ بیانات دیے، تو صبح سویرے سوشل میڈیا پر کارکنان نے ’’کاٹھ توتوں‘‘ کا کردار شروع کر دیا۔ ایک ہنگامہ بھرپا ہو گیا اور ٹیں ٹیں شروع۔
اس کی اہم وجہ تو یہ ہے کہ چوں کہ لیڈران نے ایک پالیسی دے دی اور دوسرے درجہ کی قیادت یعنی ’’را توتوں‘‘ نے اعلان کر دیا۔ سو اب ہمارا یہ فرض ہے کہ اب ہم نے ہر صورت اپنے سربراہ کو بے گناہ ہی ثابت کرنا ہے۔
یہ مثال ہم نے عمومی دی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ صرف ن لیگ پر ہی لاگو ہے، بلکہ بہت حد تک اس کا شکار پاکستان پیپلز پارٹی بھی ہے اور تحریک انصاف کے ’’کاٹھ توتوں‘‘ کا موازنہ تو سیاست کی تاریخ بالکل دینے سے قاصر ہے۔ بلکہ تحریکِ انصاف کے کارکنان اس ٹیں ٹیں میں حسبِ ذائقہ گالیوں اور بدتمیزیوں کا تڑکا خوب لگاتے ہیں۔ آخر ہمارا عمومی سیاسی رویہ ایسا کیوں ہے؟
یہاں پر ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ فال نکالنے والے کم از کم اپنے توتوں کا تو خوراک کی حد تک بہت خیال رکھتے ہیں، لیکن ہمارے جو سیاسی توتے خاص کر ’’کاٹھ توتے‘‘ مطلب سیاسی کارکنان ان بے چاروں کی کوئی خاص اہمیت ہی نہیں۔ مَیں نے کتنی بار خود دیکھا ہے کہ یہ معصوم جن واسطے ٹیں ٹیں کرتے ہیں۔ اپنے ذاتی دوستوں اور رشتہ داروں سے تعلقات خراب کرلیتے ہیں، لڑائی جھگڑے کرتے ہیں، وہی لوگ اپنی نجی محافل میں ان کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ……! میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی سیاسی جماعتیں کسی سیاسیات کے اصول یا ضابطہ پر بالکل نہیں بنائیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں نہ تو بحیثیتِ ادارہ کام کرتی ہیں اور نہ باقاعدہ تشکیل دی جاتی ہیں، بلکہ ہماری سیاسی جماعتیں تقریباً ایک لمیٹڈڈ کمپنی یا ذاتی جاگیر کی طرح ہیں۔ جہاں شروعات بھی سربراہ سے ہوتی ہے اور انتہا بھی۔ سربراہ کے منھ سے نکلنے والا ہر لفظ جماعت کی پالیسی بن جاتا ہے، اور منشور بھی۔ تمام اختیارات کے ساتھ سربراہ مکمل گرفت رکھتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تنقیدی اور بحث کا رویہ محدود ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ خوشامدی اور چاپلوس رویہ پھیلتا پھولتا ہے۔ یہ خوشامد اس معیار پر ہوتی ہے کہ سربراہ خود کو غلطیوں سے مبرا سمجھ لیتا ہے۔ مجھے نون لیگ کے ایک سابقہ ایم این اے نے بتایا کہ جب لوگ لاہور قیادت سے ملتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے جیسے خوشامد کی تعریف جو عام لغت میں ملتی ہے، وہ بہت ہی محدود ہے۔ پھر اس کا لامحالہ اثر نیچے کارکنان پر پڑتا ہے اور وہ لاشعوری طور پر اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ سیاست میں ترقی و مقام کا واحد راستہ خوشامد اور چاپلوسی ہے۔ اسی وجہ سے ہماری سیاسی حماعتیں جمود کا شکار ہو جاتی ہیں اور وقت آنے پر وہ خود کارکردگی دکھا سکتی ہیں اور نہ قیادت کا تحفظ کرسکتی ہیں۔ کیوں کہ ہم سربراہ کے علاوہ صرف توتے بناتے ہیں، جو موسم کے ساتھ اُڑ جاتے ہیں۔
اچھا ہوگا کہ ہمارے سیاسی کارکنان کو توتے نہ بنایا جائے بلکہ لیڈر بنایا جائے، یہ اس ملک پر احسانِ عظیم ہوگا۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔