چند دن قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال جو کہ پاکستان میں امریکہ کو اڈے دینے کے حوالے سے تھا، کا جواب دیتے ہوئے کہا: (چوں کہ انٹرویو انگریزی میں تھا، اس لیے انگریزی میں ہی جواب دیا) ’’ایبسلوٹلی ناٹ۔‘‘ جس کا مطلب اُردو میں ’’قطعی نہیں‘‘ ہوسکتا ہے، یا سادہ الفاظ میں ’’بالکل نہیں!‘‘
وزیرِاعظم کا یہ جواب بہت مقبول ہوا اور خاص کر تحریک انصاف کی نوجوان لاٹ کہ جو سوشل میڈیا پر بہت متحرک ہے، نے اس کو مثبت لیا۔ اس کو باقاعدہ ایک مؤثر مہم بنا کر مشتہر کیا، بلکہ یہ سوشل میڈیا کا ایک مقبول ٹرینڈ بن گیا۔ سیکڑوں لڑکے لڑکیاں اپنی مختلف حوالے سے ویڈیو بنا کر جس میں وہ ایک خاص انداز میں ’’ابسلوٹلی ناٹ‘‘ کہتے ہیں، ٹوئیٹر اور فیس بک پر وائرل کرنا شروع کردی۔
عمران خان کا یہ جواب پاکستان کی خود مختاری اور امریکی شکنجہ سے آزادی کا مظہر بتایا جا رہا ہے۔ یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے ہم اس بیان کہ جو بے شک قابلِ تعریف ہے، کی وضاحت اور وجہ بیان کریں۔ ہم یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ پہلی بار بالکل نہیں ہوا بلکہ پاکستان بننے کی ابتدا سے لے کر اب تک ہمارے سول حکمران جو ووٹ لے کر آتے ہیں، نے کئی بار اس طرح کا جواب دیا۔ مثال کے طور پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہمارا اول گورنر جنرل بننا چاہتا تھا لیکن قائد اعظم نے کہا: ’’ابسلوٹلی ناٹ!‘‘
پھر ’’سیٹو‘‘ اور ’’سینٹو‘‘ میں پاکستان کی شمولیت ’’ابسلوٹلی ناٹ‘‘ ہی رہی جب تک سول بالا دستی کسی نہ کسی صورت رہی۔
پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور افغان جنگ میں شمولیت کی خواہش پر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے ’’ابسلوٹلی ناٹ‘‘ ہی ملا، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ اصل ابسلوٹلی ناٹ کو پاکستان میں حقیقی معنوں میں متعارف ہی بھٹو نے کروایا، تو غلط نہ ہوگا۔
اس کے بعد افغان پر محمد خان جونیجو، میزائل ٹیکنالوجی اور کہوٹہ کو واپس کرنے پر محترمہ بینظیر بھٹو، ایٹمی دھماکوں پر میاں محمد نواز شریف، کچھ ہوائی اڈے واپس لینے اور ناٹو سپلائی بند کرنے، پاک ایران گیس پائپ لائن پر آصف ذرداری، سی پیک پر ایک بار پھر نواز شریف امریکہ کو ’’ابسلوٹلی ناٹ‘‘ کہہ چکے ہیں، لیکن جیسا مَیں نے اوپر لکھا ہے کہ صیح معنوں میں ’’ابسلوٹلی ناٹ‘‘ کا اجرا ذوالفقار علی بھٹو نے کیا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد مکمل بااختیار وزیراعظم تو ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے، جب کہ بعد میں آنے والے شاید اس لیول پر مقبول تھے نہ با اختیار۔ سو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ شاید خان صاحب اول وزیر اعظم ہیں جنہوں نے امریکہ کو آنکھیں دکھائیں یا انکار کیا۔
وزیراعظم کا یہ اقدام بہرحال قابلِ ستائش اور قابلِ تعریف ہے، لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس طرح کا پالیسی بیان کوئی کسی فلمی ہیرو کا ڈائیلاگ نہیں ہوتا بلکہ اس واسطے باقاعدہ ایک اجتماعی پالیسی ہوتی ہے۔ جب بھی اس طرح کی صورتِ حال ہوتی ہے، تو اس پر یہ نہیں ہوتا کہ وزیراعظم صاحب اُٹھ کر اس قسم کا بیان دے دیتا ہے، بلکہ اس قسم کے معاملات کی پہلے باقاعدہ سرکاری سطح پر تصدیق کی جاتی ہے، پھر اس کو متعلقہ صورتِ حال کے پیشِ نظر مختلف تھنک ٹینک سے فیڈ بیک لیا جاتا ہے۔ وزارتِ خارجہ اور اس سے وابستہ ماہرین کی رائے لی جاتی ہے۔ وزراتِ تجارت وغیرہ سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں موجود سفارت کاروں کی رائے لی جاتی ہے۔ کابینہ اس پر غور و خوص کرتی ہے۔ پھر خصوصاً جو یہ معاملہ ہے یعنی امریکہ کو اڈے دینے کا، اس پر سب سے مضبوط اور حتمی رائے وزراتِ دفاع اور دفاعی اداروں یعنی فوج کی لی جاتی ہے۔ پھر ان تمام خیالات کو جمع کرکے اس کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کو جانچا جاتا ہے۔ یہ بات صرف بین الفریقین رہتی بھی نہیں بلکہ اس پر یقینا یہ دیکھا گیا ہوگا کہ اس سے بذاتِ خود افغان میں کیا اثرات ہوں گے؟ اس پر ایران اور روسی ریاستوں کے تحفظات کیا ہوسکتے ہیں؟ عرب ممالک اس کو کس نظر سے دیکھیں گے؟ ہمارا اہم پڑوسی اور تجارتی حصہ دار چین اس کو کس طرح لے گا؟ کیا ہمارا کوئی فیصلہ ان ممالک پر براہِ راست اثر انداز ہو سکتا ہے؟ کیا وہ اس پر کچھ تحفظات رکھتے ہیں؟ کیا وہ اس فیصلہ کے بعد کوئی ایسی پالیسی بنا سکتے ہیں کہ جو ہمارے واسطے نقصان دہ ہو؟ الغرض، یہ ایک بہت ہی دقیق مسئلہ ہوتا ہے اور ہر طرف دیکھنے کے بعد اس پر کوئی حتمی اعلان کیا جاتا ہے۔
اب وزیراعظم بااختیار ہو یا نہ ہو، لیکن چوں کہ قانونی طور پر وہی سربراہ حکومت ہوتا ہے اور دنیا میں اسی کو بطورِ فیصلہ کن شخصیت کے دیکھا جاتا ہے، سو یہ اعلان بھی وہی کرتا ہے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ وزیراعظم اس میں محض ’’شو پیس‘‘ ہوتا ہے، بالکل نہیں۔ وزیراعظم اس تمام معاملے پر بے شک ایک مضبوط رائے رکھتا ہے اور مکمل فیصلہ پر براہِ راست اثرانداز ہو سکتا ہے، لیکن بہرحال اس واسطے اتنے زیادہ اداروں اور شخصیات کی رائے کو بہ یک جنبش قلم مسترد کردینا آسان بھی نہیں ہوتا۔ خیر، ہمارا مؤقف یہ ہے کہ یہ کوئی کسی ایک شخص بے شک وہ ملک کا وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو، کا فیصلہ ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے۔
ویسے دنیا کے مہذب، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کے پالیسی ساز اور نازک معاملات پر عوامی سطح پر خصوصاً فیصلہ ہونے کے بعد بحث کی ہی نہیں جاتی، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم لوگ یہ حماقتیں محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ واسطے کرتے ہیں۔ حکومتی جماعت اس میں بجائے ملک کے فائدے نقصان کے تناظر میں بیان کرے، وہ اپنے چمچوں کے ساتھ وارد ہو جاتی ہے اور وزیراعظم کا امیج بطورِ صلاح الدین ایوبی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے، بلکہ صرف یہ ہی نہیں اس آڑ میں حزبِ اختلاف کو معلون کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتی۔
اب جو حرکت شہباز گل نے کی اور جس طرح حزبِ اختلاف پر یہ الزام دھرا کہ ہم ’’ابسلوٹلی ناٹ‘‘ کہتے ہیں لیکن مخالفین ’’وائی ناٹ‘‘ کہنے واسطے تیار ہیں، کسی بھی پیمانہ پر قابل تعریف نہیں۔ سونے پر سہاگا کہ ہماری حزبِ اختلاف بھی ہر بات کو مسترد کرنے میں ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ وہ یہ ثابت کرنے میں بے چین ہیں کہ انکار بس ہم کرسکتے ہیں، یہ حکومت تو بس عوام کو احمق بنا کر خفیہ سمجھوتا کر رہی ہے۔ دونوں طرف سیاسی سکورنگ اور جھوٹ کا طوفان ہے۔ کارکنان نے تو علم و عقل کو قیادتوں کے ہاتھوں گروی رکھا ہوا ہے۔ ان کے دلائل کی انتہا اور گلہ پھاڑ تقریروں کا محور و مرکز محض جماعت کے سربراہ خواہ عمران خان ہو، خواہ مریم شریف صاحبہ، خواہ بلاول بھٹو ہو یا پھر علامہ سراج الحق وغیرہ ہوتے ہیں۔
کاش! ہماری جماعتیں بلکہ سول سوسائٹی ہمارے سیاسی کارکنان کی ہی مناسب تربیت کر سکیں۔ یہ بات ہمارے سیاسی قائدین کے سوچنے کی ہے کہ کارکنان کی مناسب تربیت ملک کی سیاست اور مفادات واسطے تو بے شک فائدہ مند ہی ہے، لیکن یہ بذاتِ خود ان جماعتوں اور قائدین واسطے بھی فائدہ مند ہے۔ مثال کے طور پر آپ اسی واقعہ کی مثال لے لیں، اگر کارکن سمجھ دار ہوتے، تو نہ شہباز گل کی ’’وائی ناٹ‘‘ والی یاوہ گوئی ہوتی اور نہ اپوزیشن والے لاؤ لشکر لے کر حکومت خصوصاً وزیراعظم پر چڑھائی ہی کرتے، نہ اس وجہ سے ملک کا سیاسی ماحول خراب ہوتا اور نہ قانون سازی میں رکاوٹیں ہی پیدا ہوتیں۔ بہرحال ہم اپنی طرف سے ’’آزادی‘‘ کے ان صفحات کی مدد سے عوام کو یہ آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ ’’ابسلوٹلی ناٹ‘‘ یا ’’وائی ناٹ‘‘ نہ تو کسی ایک شخص کا فیصلہ ہوتا اور نہ یہ کوئی ہیرو بنانے کی فیکٹری ہے، بلکہ دونوں طرف کے فیصلے بہت سوچ بچار کے بعد ہوتے ہیں اور ان میں ملکی مفاد کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ البتہ بدقسمتی سے جب ملک میں مارشل لا ہوتا ہے اور فیصلہ صرف ایک آمر کرتا ہے، تو ملک کے نقصان کا احتمال ہوتا ہے۔ کیوں کہ آمر نہ کسی کو جواب دہ ہوتا ہے اور نہ اس کا کا کوئی احتساب کیا جاسکتا ہے، لیکن ایک سویلین جمہوری وزیراعظم واسطے کوئی اس طرح کا فیصلہ تنِ تنہا کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے محض ان الفاظ یا فیصلوں پر کسی کی ہیرو شپ یا ولن شپ کا فیصلہ کرنا نہایت ہی جہالت اور نا مناسب عمل ہے۔ خواہ مخواہ ایک مطلق فیصلہ سنا دینا اور وہ بھی جج بن کر تو بالکل غلط اقدام ہے۔ ہمارے سیاسی کارکنان کو اس پر غور کرنا چاہیے اور بجائے فضول قیادت کو خوش کرنے کے قیادت کو سیدھی بات بتانی چاہیے۔
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔