عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ سیاسی کارکن ہوتے ہیں یا سیاست پروفیشن کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ وہ وقت اور حالات کے ساتھ اپنی سیاسی وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں اور مجوزہ سیاسی نظام میں یہ کوئی عجیب بات بھی نہیں، کہ ایک شخص اگر آج اِس دھڑے میں ہے تو کل جب عوامی رائے بدلتی ہے، تو وہ کسی اور گروہ میں چلا جاتا ہے۔ لیکن جس طرح کے واقعات پاکستان کی سیاست میں وقوع پذیر ہوتے ہیں، وہ تو ’’الامان و الحفیظ!‘‘ ایک نارمل شخص دیکھ کر ہی حیران رہ جاتا ہے۔ خاص کر یہ جو نئی ’’لاٹ‘‘ آئی ہے، اس نے تو اخلاقیات کی ساری حدود کراس کر دی ہیں۔ ماضی کے سیاست دان پھر بھی کسی نا کسی حد تک کچھ کچھ انسانی اخلاقی رویہ قائم رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر مَیں نے سابق وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو بارے پڑھا کہ انہوں نے راولپنڈی کے جیل سپرنٹنڈنٹ کو کہا۔ وہ ضیاء الحق کی توتا چشمی پر سخت دل گرفتہ تھے اور بتا رہے تھے کہ کس طرح جب وہ حکمران بنے، تو ایک دن سابق صدر ایوب خان ان سے ملنے آئے۔ گو کہ بھٹو صاحب کی ساری تحریک ایوب مخالف تھی لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایوب خان کمرے میں آئے، تو تمام وقت ان کی نظریں احترام سے جھکی رہیں۔ کیوں کہ وہ نہ صرف عمر میں مجھ سے بڑے تھے بلکہ انہوں نے ہی مجھے وزیر خارجہ بنایا تھا اور میری سیاسی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ اس دور میں میرا بحیثیتِ وزیر خارجہ ایک کردار رہا تھا۔
پھر ابھی کچھ عرصہ قبل میں نے سینئر سیاست دان جناب چوہدری نثار علی خان کو سنا۔ ان سے سوال ہوا کہ وہ چوں کہ میاں نواز شریف سے شدید اختلاف رکھتے تھے، اور اسی وجہ سے ان کو چھوڑ بھی دیا۔ جب کہ عمران خان نے ان کو بہت کہا کہ وہ پی ٹی آئی جوائن کرلیں، تو انہوں نے ایسا کیوں نہ کیا؟ نثار علی خان نے بالکل ایک خاندانی شخص کی طرح جواب دیا کہ بے شک میرے شدید تحفظات ہیں نواز شریف سے، اور ممکن ہے کہ اب میں دوبارہ ن لیگ کبھی شامل نہ ہوں۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کی آفر میرے لیے بے شک ایک اہم موقعہ تھا، لیکن کافی غور و فکر کے بعد میرے ضمیر نے اجازت نہ دی۔ کیوں کہ عمران خان کے جلسوں میں جو زبان شریف خاندان بارے استعمال کی جا رہی تھی، اس کو روکنا میرے واسطے ممکن نہ تھا اور یہ حقیقت ہے کہ بہرحال میرا شریفوں سے سالوں کا تعلق رہا تھا۔ مجھے یہ گوارہ نہ تھا کہ میری موجودگی میں خاندانِ شریف بارے بہت ہی سخت اور ہتک آمیز زبان استعمال کی جائے۔
قارئین، اب آپ مذکورہ دونوں شخصیات بارے بے شک اختلافی رائے رکھتے ہوں، لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ان دونوں راہنماؤں نے ایک مہذب اور خاندانی شخص ہونے کا حق ادا کیا۔ لیکن جب میں آج کی ’’لاٹ‘‘ کو دیکھتا ہوں، تو حیران رہ جاتا ہوں کہ محض کرسی کی ہوس اور چاپلوسی کس طرح لوگوں کو پست سے پست تر بنا دیتی ہے۔ ان میں سے کچھ کردار تو انتہائی ڈھٹائی سے اس طرح کی حرکات کرتے ہیں کہ ایک عام منفی ذہن بھی ایسا سوچ نہیں سکتا۔
ان نئے مفاداتی اور واقعاتی کرداروں میں ایک نام ہمارے وزیرِ دفاع محترم پرویز خٹک کا بھی ہے۔ خٹک صاحب ساری زندگی محترمہ بے نظیر بھٹو کی گاڑی سے لٹکتے رہے، وزیر بنے، مشیر بنے اور پھر ایک نئے سیاسی حالات میں وہ محترمہ شہید کی جماعت کو چھوڑ کر تحریکِ انصاف میں شامل ہوگئے، جو کہ بہرحال ان کا سیاسی حق تھا اور ہے۔ لیکن آج محترمہ بے نظیر کو دنیا سے گئے چودہ سال ہو گئے، اب وہ یہ انکشاف کر رہے ہیں کہ محترمہ نے ان کو کہا تھا کہ ’’کرپشن کریں‘‘ اور ’’مال بنائیں۔‘‘
اب اگر ایک لمحہ کے لیے ان کی بات کو سچ بھی مان لیں، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محترمہ کی حکومت تو 1997ء میں ختم ہوگئی تھی، سو آپ 10 سال ان کی جماعت میں کیوں رہے؟ آپ کا ضمیر تب کیوں نہیں جاگا؟
اس طرح کا ایک اور کردار محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کا ہے۔ بی بی صاحبہ نے سیاسی کیرئیر ’’ق لیگ‘‘ سے شروع کیا اور بہت فخر سے خود کو چوہدری شجاعت کا ’’سپاہی‘‘ کہا۔ وہ کشمالہ طارق کے ساتھ ایک ہی جماعت کے پلیٹ فارم سے سیاست کرتی رہیں، لیکن پھر ق لیگ کی ڈوبتی نیا دیکھ کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاؤں پڑی۔ پھر اس جاودانی آسمان نے دیکھا کہ محترمہ نے اپنی سابقہ کولیگ کشمالہ طارق کے بارے وہ الفاظ ٹی وی پر استعمال کیے کہ ایک شریف آدمی سن کر ہی بے ہوش ہو سکتا ہے۔ پھر وقت کا دھارا بدلا اور بی بی تحریک انصاف میں شامل ہوگئیں۔ تب سے ان کو زرداری اس دنیا کا کرپٹ ترین آدمی محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ کیا عوام آپ کے زرداری کے حق میں قصیدے اور پی پی سے محبت کے نغمے بھول گئے؟ محترمہ نے پی پی کی حکومت کا مکمل دور خوب انجوائے کیا۔ پھر دو ہزار بارہ کا الیکشن اسی جماعت کے ٹکٹ سے لڑا۔ اب بالفرض اگر تب وہ اور پی پی جیت جاتیں، تو کیا زرداری فرشتہ ہی رہتا؟ بدلتے سیاسی حالات نے محترمہ کو چاپلوسی کی حدود کراس کروادیں۔
اچھا ایک اور کردار جناب طلال چوہدری کا ہے۔ یہ صاحب ق لیگ کا اثاثہ تھے اور بقولِ چوہدری پرویز الٰہی، انہوں نے محض ان کو تحصیل ناظم بنانے کے لیے پنجاب میں ایک قصبہ کو تحصیل بنا دیا۔ یہ تب چوہدریوں کی گاڑی کے آگے باقاعدہ مجرا کرتے تھے، لیکن پھر حالات بدلے اور صاحب ن لیگ میں شامل ہوگئے۔ تب سے لے کر آج تک ق لیگ اور چوہدریوں پر اس طرح بے رحم تنقید فرماتے ہیں کہ سن کر لگتا ہے کہ شاید کسی ذاتی دشمنی کا شکار ہیں۔
اسی طرح بابر اعوان اور شیخ رشید کے منھ سے عمران خان کی تعریفیں سن کر چند سال پیچھے کا دور یاد آجاتا ہے، جب دنیا بھر کی خامیاں بس عمران خان میں تھیں۔ پھر خود خان صاحب جس طرح ایم کیو ایم، ق لیگ اور شیخ رشید کو سرِ عام دھن کر رکھ دیتے تھے، آج اسی طرح وہ اُن کے فرشتے بن چکے ہیں۔
پھر کل تک ن لیگ مولانا فضل الرحمان اور پی پی کے ایک دوسرے پر حملے اور کبھی عزت و احترام اور پیار اور محبت سب کے سامنے ہے۔ اب بندہ کس کس کا رونا رویے! عظمی بخاری، جنرل قادر مرزا اور بیگم فہمیدہ مرزا، راجہ ریاض، مصطفی کمال، ظفر علی شاہ، خسرو بختیار، صادق سنجرانی، فیصل صالح حیات اور ایک طویل فہرست ہے، جسے انسان سن کر اور دیکھ کر بس افسوس ہی کرسکتا ہے کہ کس طرح عارضی اور معمولی مفادات انسان کو انسانی معیار سے گرا دیتے ہیں۔ شاید انہیں لوگوں نے باشعور اور مہذب لوگوں میں سیاست کو گالی بنا دیا ہے۔ لیکن ہم یہاں سیاسی جماعتوں اور قائدین کے مجموعی رویہ پر بات نہ کریں، تو سخت زیادتی ہوگی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو بھی اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ ذمہ دار سمجھا جانا چاہیے۔ کیوں کہ آج محترمہ فردوس عاشق اعوان، پرویز خٹک اور راجہ ریاض اگر بدلتے حالات کے تحت ایک دفعہ پھر پی پی میں جانا چاہیں، تو پی پی کی قیادت ان کو بہت احترام سے خوش آمدید بولے گی۔ اسی طرح راجہ بشارت، راجہ افضل کے بیٹوں، سیال شریف کے پیروں اور ثناء اﷲ زہری وغیرہ واسطے ن لیگ کے دروازے کھلے ہیں۔ تحریکِ انصاف تو شاید آصف ذرداری اور نواز شریف کو بھی قبول کرنے واسطے تیار ہو۔ کیوں کہ اقتدار کی ہوس اور طاقت کی طلب نے ہمیں عمومی اخلاقیات سے بھی محروم کر دیا ہے۔ ہم وقتی سیاسی مفادات واسطے ہر وقت برائے فروخت بھی ہیں اور ہر دم خریدنے واسطے تیار بھی۔
اس کے علاوہ سب سے زیادہ عجیب اور متنازعہ رویہ ہمارے سیاسی کارکنان کا ہے۔ یہ معصوم مخلوق محض جذباتیت میں اپنے قائدین اور جماعت سے عشق کرتے ہیں اور مجال ہے ان لوٹوں کی آمد و رفت پر احتجاج کریں۔ چاہیے تو یہ کہ ہر جماعت کے کارکنان ایسے مفاداتی اور کم ظرف کرداروں واسطے اپنی جماعت کے دروازے کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اور کسی بھی صورت ان کو برداشت نہ کریں۔ کم از کم ان کے لیے ٹکٹ کا حصول نا ممکن بنا دیں۔
لیکن بہت دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کو خوش آمدید سب سے زیادہ ان کے ہاتھوں ڈسے کارکن کہتے ہیں۔ ’’ویلکم، ویلکم‘‘ کے نعرے وہی لگاتے ہیں اور اس مکروہ نظام کی مضبوطی میں یہ معصوم روحیں ہراول دستے کا کردار ادا کرتی ہیں۔ کاش، کوئی ان کو یہ بات سمجھا سکے کہ ان کی یہی حماقتیں ان کے واسطے زہرِ قاتل ہیں، جس دن وہ باشعور ہوگئے، اس دن ملک کا پورا سیاسی نظام بدل جائے گا۔ کیوں کہ اصل طاقت کا منبع اور اقتدار کی سیڑھی وہ ہیں۔ اگر کسی لوٹے کے حلقے سے محض 50 کارکنان باہر نکل آئیں، تو قیادت کسی صورت اس لوٹے کو قبول نہیں کرسکتی، ٹکٹ دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔