جاوید چودھری میری نظر میں سب سے اچھے کالم نگار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ان کے ہر کالم میں کچھ نیا پڑھنے کو ملتا ہے۔ چودھری صاحب کی بائیو گرافی، لائف اسٹائل اور ڈیلی ایکٹیویٹیز تک سے میں واقف ہوں لیکن میں یہ دعوا نہیں کروں گا کہ میں ان کو اپنے بچپن سے جانتا ہوں۔ مَیں چودھری صاحب سے کب واقف ہوا؟ یہ بات بھی اتنی پرانی نہیں۔ مَیں صرف اخبارات کا شوبز پڑھتا تھا یا کبھی کبھی کسی اہم خبر پر سرسری نظر دوڑا کر رکھ دیتا تھا۔ غالباً 2012ء یا 13ء کی بات ہے کہ میرے ایک شریف دوست نے مجھے چودھری صاحب کے کالم پڑھنے کا مشورہ دیا۔ کیوں کہ کسی دن میرے ہاتھ میں اس نے کتابیں دیکھی تھیں جس سے وہ سمجھ گیا تھا کہ مَیں مطالعہ کا ذوق رکھتا ہوں۔ چناں چہ مَیں نے پڑھنا شروع کیا اور پڑھتے پڑھتے ایک دن میں خود لکھنے کے قابل ہوگیا۔
عزیزانِ من! مَیں پچھلے پندرہ سالوں سے مطالعہ کر رہا ہوں لیکن جس مقصد کے لیے مَیں نے یہ تمہید باندھی ہے، وہ صرف اتنی سی بات ہے کہ جاوید چودھری جیسے مشہورِ زمانہ صحافی کو مَیں 2012ء یا 13ء سے جانتا ہوں اور حامد میر صاحب کے حوالہ سے تو مجھے یاد ہی نہیں کہ کب یہ نام ذہن نشین ہوا ہے۔ مَیں صحافت یا میڈیا کی الف بے سے بھی واقف نہیں تھا کہ مَیں حامد میر کو جانتا تھا۔ مَیں میر صاحب کو پاکستانی انیل کپور کہتا تھا۔ مَیں سمجھتا تھا کہ میر صاحب کی شکل انیل کپور سے ملتی ہے۔ بہر حال عرض یہ ہے کہ میر صاحب اس ملک کے سب سے مقبول صحافی اور اینکر ہیں۔ اگر آج ملکی سطح پر ایک سروے ہوجائے، تو مجھے یقین ہے کہ آرمی چیف جنرل باجوہ صاحب سے میر صاحب کو زیادہ لوگ جانتے ہوں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ آرمی چیف بننے سے پہلے باجوہ صاحب سے کون واقف تھا؟ اور یہ بھی سچ ہے کہ مدتِ ملازمت کے پورے ہونے کے بعد لوگ باجوہ صاحب کو کتنی دیر تک یاد رکھیں گے؟ لیکن میر صاحب مقبول تھے اور رہیں گے۔ اس کی گواہی آپ کوسوشل میڈیا دے گا۔ ٹویٹر پر’’ڈی جی آئی ایس پی آر‘‘ کے فالوورز 4.6 ملین ہیں جب کہ میر صاحب کے فالوورز 6.4 ملین کی تعداد میں ہیں۔ اس کا مگر ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میر صاحب کسی آرمی چیف سے بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں، ایک ریاستی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے آرمی چیف کی خدمات زیادہ معتبر ہیں۔
عزیزانِ من! مَیں آج میر صاحب کے بارے میں نئے انکشافات نہیں کرنے جا رہا۔ کیوں کہ میر صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ ہر شخص میر صاحب کی بہادری اور بے باک صحافت کا معترف ہے۔ ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ اگر آئین و قانون کی بالادستی ہو یا پارلیمان کے تقدس کی بات ہو، اگر جمہوریت بحالی کی تحریک ہو یا عدلیہ کی آزادی کے لیے لانگ مارچ ہو، اگر آزادیِ صحافت کے لیے جد و جہد ہو یا ریاستی اداروں کے جبر کا شکار ہونے والے لاپتا افراد، سب کے لیے اگر صحافتی حلقہ سے آواز اٹھی ہے، تو وہ صرف حامد میر صاحب ہی کی آواز ہے۔ جیسا کہ ہر ادارے میں کچھ خائن ضرور ہوتے ہیں، تو اگر میر صاحب نے ان خائنوں کی نشان دہی کی ہے، تو بدلے میں آپ نے ان پر غداری کا الزام لگادیا، کیوں……؟ یہ کہاں کا انصاف ہے! اگر کوئی شخص کسی ایک ڈاکٹر سے اختلاف رکھتا ہو، تو کوئی بھی مہذب معاشرہ یہ نہیں کہے گا کہ یہ شخص پورے علمِ طب سے اختلاف کا مرتکب ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ایک مولوی کے قول یا عمل پر تنقید کرتاہے، تو کوئی بھی صاحبِ عقل اس کو اسلام پر تنقید نہیں کہے گا۔ اسی طرح اگر میر صاحب نے ایک سابق جرنیل کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے، یا کسی حاضرِ سروس آفیسر کو متنبہ کیا ہے، تو آپ نے اس کو پورے ریاستی ادارے کی خاطر تنبیہ ٹھہرا دی، یہ کہاں کی دانش مندی ہے؟ اگر میر صاحب کے لگائے گئے الزامات غلط ہیں، تو آپ کے لیے کیا مشکل ہے؟ آپ تو اس ملک کے خشک و تر کے مالک و مختار ہیں۔ پورا ملک آپ کی مٹھی میں ہے۔ آپ ثابت کردیں کہ یہ الزامات غلط ہیں۔ اور اگر نہیں کرسکتے، تو براہِ کرم یہ ’’غدار‘‘، ’’غدار‘‘ کا راگ الاپنا چھوڑ دیں، اور ہمیں کہنے دیں کہ ’’حامد میر غدار نہیں ہیں۔‘‘
عزیزانِ من! ووگ میگزین کو چند دن پہلے ملالہ یوسف زئی نے ایک انٹرویو دیا تھا۔ وہ انٹرویو پبلش کیا ہوا کہ جیسے واقعی اصفہان سے دجالِ اکبر کا خروج ہوا ہو۔ جس سے کم زور مسلمانوں کا ایمان متزلزل ہونے لگا اور عالمِ اسلام خطرے میں پڑگیا۔ اب بس نجات کا صرف ایک ہی راستہ بچا تھا کہ ملالہ کو ’’کافر‘‘ اور ’’یہودی ایجنٹ‘‘ کہنے کا وِرد کثرت سے سوشل میڈیا پر ’’اَپ لوڈ‘‘ کر دیا جائے۔ جس میں ملتِ اسلامیہ کی کثیر تعداد نے حصہ لیا بلکہ سوشل میڈیا پر ایسا ’’ٹرینڈ‘‘ چلایا گیا کہ جس پر ’’یوٹیوب‘‘،’’فیس بک‘‘ اور ’’ٹویٹر‘‘ کے مالکان بھی حیران ہوئے ہوں گے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے کہ بڑے بڑے ٹی وی چینلوں کے اینکر، دانشور اور بڑے بڑے شیخ القرآن و شیخ الحدیث بھی اپنے مذمتی بیانات اَپ لوڈ کر رہے ہیں۔ یہ جان کر وہ کتنے ہنسے ہوں گے کہ اس قیامتِ صغرا کے برپا ہونے کی وجہ صرف وہ چند جملے ہیں جس میں ملالہ کہتی ہے کہ ’’مَیں ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں؟ اگر آپ کسی کو اپنی زندگی میں لانا چاہتے ہو، تو آپ کو کیوں شادی کے پیپر پر دستخط کرنے ہوتے ہیں؟ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ یہ ایک شراکت داری ہو!‘‘
عزیزانِ من! ٹھنڈے دل سے غور کیجیے اور کہیے کہ ان جملوں میں نکاح کا انکار کہا پر ہوا ہے؟ مَیں تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا ہوں کہ ان جملوں میں نکاح کا وہ لفظ نکالوں جو مولوی صاحبان منبرِ رسولؐ پر بیٹھ کر بیان کرتے ہیں کہ ملالہ کہتی ہیں کہ شادی کے لیے نکاح کی کیا ضرورت ہے؟ آپ ویسے ہی پارٹنر شپ کر لیا کریں۔ میرے تجزیہ کے مطابق ان جملوں میں سے جو پہلی بات کہی گئی ہے، اس سے تو قدرے اختلاف ہوسکتا ہے۔ وہ یہ کہ ’’مَیں ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں؟‘‘ اس اختلاف کے لیے بھی صرف دو استدلال ہیں۔ پہلا یہ کہ شادی کرنا ہر عاقل و بالغ انسان کا بنیادی حق ہے۔ دوسرا یہ کہ شادی انسانی معاشرے کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے، لیکن اگر آپ ملالہ کے اس جملے کا سیاق و سباق ملحوظ رکھتے ہیں، تو آپ یہ جان جائیں گے کہ یہ جملہ ہر وہ لڑکی کہتی ہے جو مشرقی تہذیب سے تعلق رکھتی ہے۔ مشرقی تہذیب کی ہر لڑکی سے جب شادی کا کہا جاتا ہے، تو بغیر توقف کے فوراً کہتی ہے کہ مَیں شادی نہیں کروں گی۔ وہ سمجھتی ہے کہ مَیں کیوں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے گھر چلی جاؤں؟ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ لڑکی جسے رشتوں کی اہمیت کا شعور ہے، اس کے لیے یہ کسی زہر کا پیالہ پینے سے کم نہیں کہ وہ اپنے والدین، بہن بھائی اور وہ گھر اور محلہ چھوڑ دے، جہاں اس کا بچپن گزرا ہو۔ یہ بہت بڑی قربانی ہے۔ لہٰذا ملالہ کے پہلے جملے کی اگر توضیح ہو جائے، تو بات یوں ہوگی: ’’مَیں ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکی کہ لوگ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر شادی کیوں کرتے ہیں؟‘‘ کیوں کہ اس انٹرویو میں اس کے بعد والی سطروں میں اس کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ’’میری ماں مجھے کہتی ہے کہ ایسا نہیں کہو، تمہیں شادی کرنی ہوگی!‘‘
عزیزانِ من! اور وہ دوسرا جملہ جسے لوگ بہت زیادہ اچھالتے ہیں اور جس کا مطلب یہ نکالتے ہیں کہ ملالہ کہتی ہے کہ ’’لوگ شادی کے پیپر پر دستخط کیوں کرتے ہیں؟ یہ پارٹنر شپ کیوں نہیں کرتے؟‘‘ یہاں خود ساختہ فقہا نے کیا کیا……! شادی کے پیپر کو نکاح اور پارٹنر شپ کو زنا سے تعبیر کیا۔ بس پھر کیا تھا، فتوے شروع ہوگئے۔ حالاں کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح سمجھی جا رہی ہے۔ اگر ملالہ خود شادی کے پیپر کو نکاح کے مفہوم میں لیتی، تو آگے لفظ ’’پارٹنر شپ‘‘ کبھی استعمال نہیں کرتی۔ کیوں کہ نکاح کے لغوی معنی ’’جمع کرنا یا ملانا‘‘ کے ہیں، اور نکاح کی شرعی تعریف ’’مرد اور عورت کے درمیان شرعی اصولوں پر کیا گیا معاہدہ ہے۔‘‘ یعنی مرد اور عورت کو شرعی اصولوں کے مطابق جمع کرنے کا معاہدہ۔ اور پارٹنر شپ کے معنی شراکت داری کے ہیں، یعنی دو افراد کا آپس میں بنیادی اصولوں کے مطابق معاہدہ کرنا۔ یہ تو دونوں صورتوں میں معاہدہ ہوا جس پر لازم ہے کہ ملالہ کو دستخط کرنا پڑیں گے۔ تو پھر ایک جملے میں دو ہم معنی الفاظ کو جمع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ دراصل اگر کسی انسان کا ذہن صاف ہو اور وہ یہ جملہ پڑھے، تو وہ اس یہ مفہوم لے گا کہ ملالہ کہتی ہے کہ ’’جس شادی کے پیپر پر دستخط کروا کر آپ ایک لڑکی کو کسی لڑکے سے کم تر بنا دیتے ہیں، یہ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ یہ دونوں برابر کے شراکت دارہوں۔‘‘ یعنی شادی کے پیپر پر دستخط کرتے وقت یہ کم تر اور برتر والا تصور ختم ہونا چاہیے اور شراکت داری کی طرح ایک دوسرے کے حقوق تسلیم کرلینے چاہئیں۔ کیوں کہ ہمارے معاشرے میں عموماً لوگ بیوی کو مقام کے لحاظ سے شوہر سے کم تر سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ اسلام میں ایسا کوئی تصور نہیں کہ بیوی کو شوہر سے کم تر سمجھا جائے۔ اسلام میں میاں بیوی کے حقوق برابر ہیں، ’’پارٹنر شپ‘‘ یعنی شراکت داری کی طرح۔ اب اگر کسی کے ذہن پر حوس غالب ہو، تو لازم ہے کہ وہ نکاح اور زنا کا تصادم کرے گا اور ملالہ پر فتوا لگائے گا۔
تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیجیے کہ ملالہ نے واقعی بات اس طرح کہی ہے جس طرح سمجھی جارہی ہے، تو بحیثیت ایک مسلمان کے ہمارا ردعمل کیسا ہونا چاہیے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ملالہ کوئی مذہبی سکالر یا مفتی ہے کہ جس نے شادی کے متعلق ایسا فتوا دیا ہے، یا پھر ملالہ پارلیمنٹ کی ممبر ہے جس نے شادی کے متعلق ایسا بل پیش کیا ہے ؟ یا پھر ملالہ کوئی ڈکٹیٹر ہے کہ جس کی مرضی آپ پر بندوق کی نوک پر مسلط کی جا رہی ہے؟ جب ایسا کچھ بھی نہیں، تو پھر اس شور کا کیا مطلب؟
عزیزانِ من! اب اس جواب کی طرف آتے ہیں کہ بحیثیتِ مسلمان ہمارا ردِ عمل کیسا ہونا چاہیے۔ مسند احمد کی ایک حدیث کے مطابق ایک نوجوان نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا، یا رسولؐ اللہ! مجھے زنا کی اجازت دے دیں۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ڈانٹنے لگے، لیکن نبی کریمؐ نے فرمایا میرے قریب آجاؤ! وہ قریب آکر بیٹھ گیا، تو آپؐ نے اس سے پوچھا، کیا تم اپنی ماں کے حق میں بدکاری پسند کرو گے؟ اس نے کہا، اللہ کی قسم! کبھی نہیں۔ آپؐ نے فرمایا، لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے۔ اسی طرح اللہ کے نبیؐ نے بالترتیب اس سے بیٹی، بہن، پھوپھی اور خالہ کے بارے میں پوچھا اور وہ نفی میں جواب دیتا رہا۔ آپؐ فرماتے تھے کہ لوگ بھی اسے اپنے رشتے داروں کے لیے پسند نہیں کرتے اور آخر میں اللہ کے نبیؐ نے اس نوجوان کے لیے دعا کی۔
ان دانشوروں اور مولویوں سے میری گذارش ہے کہ اس فتوے بازی سے جب بھی آپ کو فرصت ملے، تو براہِ کرم مسند احمد کی یہ حدیث نکال کر تھوڑی دیر کے لیے غور کریں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا ملالہ کی بات اس نوجوان کی بات سے بڑی ہے، جس نے بارگاہِ رسالتؐ میں کھڑے ہو کر بھرے مجمع میں نبی کریمؐ سے اس گناہ کو کرنے کی اجازت مانگی تھی، جس کا ہم خلوت میں بھی تصور نہیں کرسکتے؟ اگر نہیں، تو پھر اس پر بھی غور کریں کہ اس کے جواب میں رسولؐ اللہ کا ردِعمل کیا تھا؟ کیا آپؐ نے اس کی گردن اُڑانے کا فرمان جاری کیا تھا یا سنگسار کرنے کا؟ نہیں ہر گز نہیں، بلکہ آپؐ نے اس کو اپنے قریب بٹھایا اور ایک مشفق استاد کی طرح اسے سمجھایا اور اس کے لیے دعا کی۔
عزیزانِ من! کاش، جب ملالہ کہتی کہ مَیں نہیں سمجھ سکی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں اور ہم اپنے نبیؐ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے کہتے کہ ملالہ بیٹی شادی تو پروردگارِ عالم کی وہ عظیم اسکیم ہے جس کی بدولت پاک اور مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے، جس سے رشتوں کو تقدس حاصل ہوتا ہے۔ شادی محض جنسی تسکین کا نام نہیں بلکہ یہ قیامت تک آنے والی انسانیت کی بقا کی ضامن ہے۔
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔