نئی امریکی گیم کا پرانا پروپیگنڈا

امریکہ اپنی پالیسی کے تحت اعلان پر عمل پیرا، افغانستان سے انخلا کا ٹائم فریم دے چکا۔ روس کا بنایا ہوا بگرام ائیر بیس جلد کابل انتظامیہ کے حوالے کردیا جائے گا۔ گو کہ ماضی کی روایات کے مطابق امریکہ جس ملک میں جاتا ہے، باآسانی اپنے انخلا کے مراحل کو مکمل نہیں کرتا اور کوئی نہ کوئی جواز موجودگی کا پیدا کرکے ماحول کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ پینٹاگون کی روایت رہی ہے کہ چاہے اُسے کتنا بھی نقصان ہورہا ہو، وہ اپنے مفادات کے حصول تک میدان کسی دیرینہ حریف کے لیے کھلا نہیں چھوڑتا۔ افغانستان کے خلاف جارحیت اور پاکستان کو دھمکی دے کر لاجسٹک سہولیات حاصل کی گئیں، تو اسے پہلے مذہبی جنگ قرار دیا پھر طے شدہ ایجنڈے کے تحت سلامتی کونسل کے ذریعے مسلم اکثریتی ممالک کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا، جو ہنوز جاری ہے۔ سابق امریکی صدربارک اوباما افغانستان میں جنگ کو پیچیدہ عمل قرار دے چکے تھے اور ان کے لیے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا اعلان بھی مؤثر ثابت نہیں ہوا۔
بلاشبہ افغانستان میں روس اور امریکہ نے افغان سیاسی اسٹیک ہولڈروں کی اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دخل اندازی اور جارحیت کی۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ افغان عوام کو غیر ملکی افواج کی وجہ سے اتنا نقصان نہیں پہنچا،جتنا آپسی خانہ جنگی کی وجہ سے پہنچا۔
اس وقت ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں ایک مفروضے پر تن دہی سے کام ہورہا ہے، جس میں اس ’’خدشے‘ ‘ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی جانب سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کی حتمی تاریخ دینے کے پیچھے بھی ایک ’’سازش‘‘ ہے، جس کا مقصد افغانوں کے درمیان خانہ جنگی اور انتشار پیدا کرکے چین، ایران اور پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے۔
جرمن میگزین "DER SPIEGEL” کا حوالہ بڑی شد و مد سے دیا جا رہا ہے کہ افغان طالبان نے کابل انتظامیہ کے زیرِ انتظام علاقوں پر حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغان طالبان اور افغان سیکورٹی فورسز کے درمیان اتنی شدت کے ساتھ جنگ ہورہی ہے جو کبھی افغانستان میں روس یا امریکہ کے ساتھ بھی نہیں ہوئی۔بعض تجزیہ نگاروں کو یہ قلق اور صدمہ ہے کہ کابل انتظامیہ کے بااثر اور پاکستان مخالف عناصر کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے خصوصی طور پر ذرائع ابلاغ میں ایسا تاثر دیا کہ امریکہ، پاکستان میں فوجی اڈے میں براجمان ہو کر چین، ایران اور افغانستان سمیت وسطِ ایشیائی ممالک بشمول روس پر خصوصی نظر رکھے گا۔
ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر افغان طالبان نے بھی بِنا تصدیق کیے پڑوسی ممالک کو تنبیہ کی کہ وہ ایسا اقدام نہ کریں، ورنہ یہ تاریخی غلطی ہوگی۔ اس بیان میں پاکستان کا نام شامل نہیں تھا، لیکن غیر مبہم طور پر اسے پاکستان سے جوڑ دیا گیا، تاکہ افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان مثبت تعلقات کو خراب کیا جاسکے، جس کی بارہاکوششیں کی جا تی رہی ہیں۔
پاکستان صراحت کے ساتھ ایسی خبروں کو بے بنیاد قرار دے چکا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ کی واپسی کی کئی وجوہ پر سیر حاصل تجزیے اور امکانات ظاہر کیے جا چکے اور یہ سلسلہ جاری ہے، جو شاید کئی برسوں تک تجزیہ نگاروں اور دفاعی امور سے وابستہ افراد کا موضوع رہے گا، تاہم اس اَمر پر ایسے تحفظات کا اظہار کہ امریکہ، افغانستان کے اندرونی معاملات میں اس لیے مداخلت نہیں کررہا، تاکہ افغانستان میں مسلسل خانہ جنگی رہے اور پڑوسی ممالک تناؤ اور دباؤ کا شکار رہیں۔ بالخصوص چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو ناکام بنانے کی کئی تھیوریوں پر عالمی سیاست رکھنے والوں کی گہری نظر ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ افغانستان، امریکہ اور نیٹو کے مکمل اور حتمی انخلا کے بعد بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوگا، تو شاید اس کا اندازہ لگاناقبل ازوقت ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان پر حسبِ روایت الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار پر متنازعہ بیانات دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ تحفظات ہیں کہ ان کے اس طرزِ عمل سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچے گا۔
پاکستان، افغان طالبان پر ایک حد تک رسوخ ضرور رکھتا ہے، جس کی موجودہ وجہ لاکھوں افغان مہاجرین کو مکمل نقل و حرکت اور کاروبار کی آزادی اور وہ تمام حقوق دینا ہے، جو کسی پاکستانی شہری کو حاصل ہیں۔ پاکستان نے افغان مہاجرین پر ایسی سخت گیر پالیسی کا اطلاق نہیں کیا جو ایران، بنگلہ دیش سمیت مغرب اور یورپی ممالک میں ہے۔ افغان طالبان یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کے جانے کے بعد کابل انتظامیہ میں موجود ان کے مخالف جنگجو ایسا ماحول ضرور پیدا کریں گے جس سے ایک بار پھر افغان عوا م پاکستان آنے پر مجبور ہوں گے۔ کیوں کہ پاکستان واحد ملک ہے، جو افغان مہاجرین کو پناہ دے گا۔ لہٰذا ماضی میں جو کچھ ہوا اور اس وقت جو افغانستان میں ہورہا ہے، اس سے عالمی برداری آگاہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی موجودگی کے باوجود جب افغان طالبان کو افغانستان کے 60 فیصد سے زائد حصے پر قابض ہونے سے نہیں روکا جاسکا، تو حاشیہ بردار کابل انتظامیہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ عالمی قوتوں کے افغانستان سے نکلنے کے بعد بھاری مراعات کی لالچ میں بھرتی ہونے والوں ٹڈی دَل کو حقیقی جنگ میں لڑنے کے لیے ثابت قدم رکھ سکیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک اس زمینی حقیقت سے آگاہ ہیں کہ افغان طالبان اپنے ’’نظریے‘ ‘کے تحت لڑتے ہیں اور دیگر صرف تنخواہ کے لیے۔
پاکستان ماضی کی بہ نسبت تمام پڑوسی ممالک سے مینڈیٹ کے مطابق بہتر روابط کی پالیسی پر گام زن ہے۔ یہ ریاست کی مثبت پالیسی ہے، گو کہ اس سے کچھ دیرینہ دوست ناراض بھی ہوئے لیکن انہیں ریاست کی مجبوریوں کا بھی بخوبی ادراک ہے۔ ریاست، افغانستان میں کسی ممکنہ خانہ جنگی کی روک تھام میں دہشت گردوں کو پاکستان آمد سے روکنے کے لیے پاک، افغان اور ایران بارڈر مینجمنٹ کو پختہ اور قابل عمل بنانا چاہتی ہے۔ اس عمل میں رکاؤٹ پیدا کرنے میں جو بھی ہیں ان کا واحد مقصد ملک دشمن عناصر کے مذموم ایجنڈوں پر عمل کرنا ہے۔ امریکہ اور نیٹوکا پڑوسی ملک سے انخلا خطے کے تمام ممالک کے مفاد ہے۔ غیر ملکیوں کو ماورائے قانون مراعات اور سہولیات جس ملک نے دیں، وہ کبھی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکا۔ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے، اس پر ریاست کی گہری نظر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ نادان دوستوں کو بھی سمجھنا چاہیے، لایعنی اور بے بنیاد پروپیگنڈا کرنا ملک و قوم کے مفا د میں نہیں۔
………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔